Ahkam e Juma Wo Jamat

کرونا وائرس ،لاک ڈا ؤن اور احکام جمعہ وجماعت

از: محمد اختر حسین قادری
صدرشعبۂ افتا، دارالعلوم علیمیہ، جمداشاہی، بستی، یوپی، انڈیا۔
قاضی شریعت، ضلع سنت کبیر نگر، یوپی
۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل میں کہ
(۱) کرونا وائرس کے خوف کے سبب حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن اور دفعہ ۱۴۴نافذ ہے جس کے سبب مسلمانوں کا مسجد میں جماعت وجمعہ کے لئے جانا بند ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں حکومت کی طرف سے سخت کاروائی ہوتی ہے۔ مسجد میں صرف پانچ افراد جا سکتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وائرس کے خوف سے جماعت وجمعہ ساقط ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں حکومت کی سخت کاروائی کے خوف سے جو لوگ مسجد نہیں جا رہے ہیں وہ گنہگار نہیں۔اس میں صحیح کیا ہے ؟
(۲) بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جن پانچ افراد کو جماعت وجمعہ کی اجازت ہے اگر وہ وائرس کے خوف سے دیگر لوگوں کو مسجد نہ آنے دیں اور دروازۂ مسجد بند کر لیں تب بھی ان کا جمعہ صحیح ہے۔ وہ اس سلسلہ میں خوف عدو کے سبب دروازہ قلعہ بند کرنے سے اور عورتوں کی ممانعت اور موذی کی ممانعت ِ مسجد سے دلیل دے رہے ہیں۔ کیا ان کا یہ استدلال درست ہے؟ اور دروازہ مسجد بند کر لینے سے اذن عام ثابت رہے گا کہ نہیں ؟ نمازی حضرات اندر سے بند کریں یا کوئی اور۔ دونوں کی تفصیل ہو۔
آپ کی بارگاہ سے تسلی بخش جواب کی امید ہے۔ تفصیلی وضاحت اور فریقین کے دلائل کا تحقیقی جائزہ پیش فرماکر ملت اسلامیہ کی صحیح رہنمائی فرمائیں۔
مستفتی: محمد نوشاد احمد رضوی
خطیب وامام رضا جامع مسجد رضا نگر خلیل آباد
۔
با سمہٖ تعا لیٰ وتقد س
ا للھم ھدایۃ ا لحق وا لصواب
ا لجواب بعون ا لملک ا لوھاب:
(۱) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر پانچ وقت کی نما ز اور جمعہ فرض فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلیٰ الْمُؤمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً}(سورۃ النساء ؍ ۱۰۳ )
اور ارشاد ہوتا ہے :
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللّہِ} (سورۃ الجمعۃ ؍۹)
اور نماز پنجگانہ باجماعت حاضری مسجد کے ساتھ واجب ہے، درمختار میں ہے :
’’تجب علی الرجال العقلاء البالغین الا حر ار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج‘‘ (درمختار مع ردالمحتار، ج :۲، ص:۲۴۸)
فتاوی رضویہ میں ہے :
’’پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ واجب ہے ایک وقت کا بھی بلا عذر ترک گناہ ہے ‘‘ (فتاوی رضویہ ج :۵،ص:۵۰۸)
البتہ بعض اعذار کے سبب جماعت کی حاضری ساقط ہو جاتی ہے، تبیین الحقائق میں ہے :
’’وتسقط الجماعۃ بالاعذار حتی لا تجب علی المریض والمقعد والزمن ومقطوع الید والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذی لا یستطیع المشی (الی قولہ) والصحیح انھا تسقط بعذر المرض والطین والمطر والبرد الشدید والظلمۃ الشدیدۃ‘‘ (ج:۱،ص:۳۴۲)
ترجمہ: عذروں کے سبب جماعت کی حاضری ساقط ہو جاتی ہے۔ اسی لئے مریض، اپاہج، فالج زدہ، ہاتھ پاؤں کٹا، لنجا جو مسجد تک نہ جاسکے ایسوں پر جماعت واجب نہیں ہے اور صحیح یہ ہے کہ بیماری، سخت کیچڑ،تیز بارش اور سخت سردی اور سخت تاریکی سے بھی جماعت ساقط ہو جاتی ہے ۔ اور صحت جمعہ کے متعدد شرائط ہیں۔ ان کو بیان کرتے ہوئے درمختار میں فرمایا :
’’ویشترط لصحتھا سبعۃ اشیاء الاول المصر والثانی السلطان والسابع الاذن العام‘‘ ( درمختار مع ردالمحتار ج :۳،ص:۶)
تبیین الحقائق میں ہے :
’’شرط ادائھا المصر ای شرط جواز الجمعۃ المصر والسلطان او نائبہ ووقت للظھر والخطبۃ قبلھا والجماعۃ والاذن العام‘‘ (ج:۱،ص: ۵۲۳تا ۵۳۳)
بہار شریعت میں ہے :
’’جمعہ پڑھنے کے لئے چھ شرطیں ہیں کہ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو تو ہوگا ہی نہیں (۱) مصر یا فنائے مصر (۲) سلطان اسلام یا اس کا نائب جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا (۳)وقت ظہر (۴) خطبہ (۵) جماعت یعنی امام کے علاوہ کم از کم تین مرد (۶)اذن عام (ج:۴،ص: ۷۶۲تا ۷۷۰)
مذکورہ امور صحت جمعہ کے لئے شرط ہیں مگر کسی مسلمان پر جمعہ واجب ہونے کے لئے گیارہ شرطیں ہیں ،متون وشروح اور فتاوی میں تفصیل موجود ہے۔ ان شرطوں کو شمار کراتے ہوئے ’’بہار شریعت‘‘ میں درج ہے:
’’جمعہ واجب ہونے کے لئے گیارہ شرطیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی معدوم ہو تو فرض نہیں ۔پھر بھی اگر پڑھے گا تو ہوجائے گا‘‘ (ج:۴،ص:۷۰)
’’صحت یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں ، قید میں نہ ہونا ، بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کاخوف نہ ہونا ، مینھ یا آندھی یا اولے یا سردی کا نہ ہونا یعنی اس قدر کہ ان سے نقصان کا خوف صحیح ہو ‘‘ (ج:۴،ص:۷۷۰تا ۷۷۲)
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ نہ ہر شخص پر جماعت کی حاضری واجب ہے اور نہ ہر شخص پر جمعہ فرض ہے۔ تو جن معذروں پر جماعت کی حاضری واجب نہیں اگر وہ لوگ مسجد میں جماعت سے نماز ادا نہ کریں تو ان پر ترک جماعت کا کوئی گناہ نہیں ہوگا بلکہ اگر جماعت میں حاضری کا ارادہ رکھنے کے باوجود حاضر نہ ہوپائیں تو جماعت کا ثواب ان کو بھی ملے گا۔’’مراقی الفلاح‘‘ میں ہے:
’’واذا انقطع عن الجماعۃ لعذر من اعذارھا المبیحۃ للتخلف وکانت نیتہ حضورھا لولا العذر الحاصل یحصل لہ ثوابھا لقولہ علیہ السلام انما الاعمال بالنیات وانما لکل امریٔ ما نوی‘‘
(مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی، ص:۲۹۹)
ترجمہ : اور اگر کسی ایسے عذر کی بنا پر جماعت نہ پا سکا جس سے جماعت کی غیر حاضری جائز ہوتی ہے اور اس کی نیت جماعت میں حاضری کی تھی اگر وہ عذر نہ ہوتا تو اسے جماعت کا ثواب ملے گا اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے اس کی نیت کے اعتبار سے اجر ہے ۔
مگر یہ حصول ثواب بھی علما نے صرف اسی صورت میں بیان فرمایا ہے جہاں’’عذر فی الحضور ‘‘ہو نہ کہ’’عذر للحاضر ‘‘ ہو۔ بلفظ دگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر آدمی کے اندر ایسا عذر ہے کہ چاہنے کے باوجود مسجد تک نہ جاسکے تو اس ارادہ پر امید ثواب ہے اور اگر عذر خارجی ہے مثلا بارش وغیرہ تو پھر اس کے لئے یہ فضیلت نہیں ہے ردالمحتار میں ہے :
’’فی نورالایضاح واذا انقطع عن الجماعۃ لعذر من اعذارھا وکانت نیتہ حضورھا لو لاالعذر یحصل لہ ثوابھا اھ والظاھر ان المراد بہ العذر المانع کالمرض والشیخوخۃ والفلج بخلاف نحو المطر والطین والبرد والعمی ۔۔۔تامل‘‘ (ردالمحتار، ج:۲، ص:۲۴۸)
ترجمہ: نورالایضاح میں ہے اور اگر کسی عذر کے سبب جماعت میں شامل نہ ہوسکا اور اس کی نیت حاضری کی تھی اگر وہ عذر نہ ہوتا تو اسے ثواب ملے گا اور ظاہر یہ ہے کہ یہاں وہ عذر مراد ہے جو چلنے سے مانع ہو جیسے بیماری، بڑھاپا، فالج برخلاف بارش کیچڑ سردی وغیرہ۔۔۔ غور کرو۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عذر شرعی قابل قبول کے سبب جماعت کی حاضری اور فرضیت جمعہ ساقط ہو جاتی ہے اور یہ امر بھی مسلم ہے کہ مرض قابل قبول عذر شرعی ہے چنانچہ الاشباہ والنظائر میں ہے :
’’واعلم ان اسباب التخفیف فی العبادات وغیرھا سبعۃ الثانی المرض ورخصہ کثیرۃ التیمم عند الخوف علی نفسہ او علی عضوہ اومن زیادۃ المرض او بطؤہ والقعود فی صلاۃ الفرض والاضطجاع فیھا والایماء والتخلف عن الجماعۃ مع حصول الفضیلۃ اھ‘‘ (الاشباہ والنظائر، ج :۱، ص:۲۲)
ترجمہ: جاننا چاہئے کہ عبادات وغیرہ میں اسباب تخفیف سات ہیں۔ ان میں دوسرا سبب مرض ہے اور مرض کے سبب کثیر رخصتیں ہیں (مثلاً)اپنی جان یا کسی عضو کے جانے کا یا مرض کے بڑھنے یا دیر میں ٹھیک ہونے کے سبب تیمم کی اجازت ، فرض نماز بیٹھ کر لیٹ کر اور اشارہ سے پڑھنے کا جواز، جماعت کی غیر حاضری کی اجازت فضیلت پانے کے ساتھ ۔
مگر یہ بھی مسلم ہے کہ جو مرض اسباب تخفیف میں ہے اس کی دو صورت ہے۔ ایک یہ کہ آدمی حقیقۃًمرض میں مبتلا ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ حقیقۃًمرض میں مبتلا نہیں ہے البتہ مرض میں مبتلا ہو جانے کا صحیح خوف اور اندیشہ ہے۔ آپ سہولت اوراختصار کے لئے ان دونوں کو مرض حقیقی اور حکمی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔فقہائے کرام کے یہاں دونوں مرضوں کے سبب عبادات میں تخفیف ملتی ہے۔ اعلیٰحضرت سیدنا امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ جواز تیمم کی تفصیل میں رقمطراز ہیں:
’’ مریض ہے، پانی سے طہارت کرے تو مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہوگا اور یہ بات ظاہری علامت یا تجربہ سے ثابت ہو ، یا طبیب حاذق مسلم مستور ایسا کہے ۔ یونہی اگر فی الحال مرض نہیں مگر تجربہ وغیرہ دلائل معتبرہ شرعیہ مذکورہ سے ثابت ہے کہ اس وقت پانی سے طہارت کی تو بیمار ہوجائے گا ‘‘ (فتاوی رضویہ، ج:۳، ص:۸۵)
خلیفۂ اعلیٰ حضرت صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:
’’محض خیال ہی خیال ہو تو تیمم جائز نہیں، صحیح اندیشہ ہو خواہ یوں کہ اس نے خود آزمایا یا یوں کہ کسی مسلمان اچھے لائق حکیم نے جو ظاہراً فاسق نہ ہو، کہہ دیا ہو‘‘ ملخصا ً۔ (بہار شریعت ، ج:۳،ص :۳۴۶)
روزہ نہ رکھنے کی اجازت پانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہوجانے کا گمان غالب ہو یا خادم و خادمہ کو ناقابل برداشت ضعف کا غالب گمان ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔ ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے۔ محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں (۱) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا (۲)اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا (۳) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اس کی خبر دی ہو۔‘‘ (بہارشریعت ،ج:۵،ص:۱۰۰۳)
درمختار میں ہے :
’’وصحیح خاف المرض بغلبۃ الظن بامارۃ او تجربۃ او باخبار طبیب حاذق مسلم مستور الفطر‘‘ (درمختار مع الرد، ج:۳، ص:۳۶۰)
ردالمحتار میں ہے :
’’وصحیح خاف المرض ای بغلبۃ الظن کما یاتی فما فی المجمع من انہ لا یفطر محمول علی ان المراد بالخوف مجرد الوھم کما فی البحر والشرنبلالیۃ‘‘ (حوالہ سابق)
مراقی الفلاح میں ہے :
’’والخوف المعتبر مستندا فیہ لغلبۃ الظن فانھا بمنزلۃ الیقین بتجربۃ سابقۃ او اخبار طبیب مسلم حاذق اھ‘‘ (مراقی الفلاح مع الطحطاوی، ص:۶۸۵)
حاشیہ طحطاوی میں ہے:
’’المعتبر فی تعلق الرخصۃ ھو السبب الظاہر دون الحقیقۃ‘‘ (حوالہ سابق ص: ۵۵۵)
ان عبارات فقہیہ اور ارشادات علمیہ سے چند باتیں خاص طورسے واضح ہوئیں :
(۱) مرض حقیقی اور مرض حکمی دونوں ہی سبب تخفیف ہیں (۲) مرض حکمی کے ثبوت کا تین طریقہ ہے۔ ظاہری علامت تجربہ اور طبیب حاذق کا قول (۳) عبادت خواہ مقصودہ یا غیر مقصودہ مرض دونوں کے لئے سبب تخفیف ہے۔ (۴) عبادات مقصودہ میں فرض واجب سب میں مرض سبب تخفیف ہے۔ (۵) صحیح خوف اور اندیشہ کا مطلب محض وہم نہیں بلکہ غالب گمان ہے۔ (۶) غالب گمان کا تحقق ظاہری علامت تجربہ اور طبیب حاذق کے قول سے ہوگا۔
اس تفصیلی گفتگو کے بعد دیکھنا ہے کہ کرونا وائرس کووڈ۱۹ کے پیش نظر حکومت ہند کا یہ اعلان کہ “مسجد میں بیک وقت پانچ سے زیادہ افراد نماز نہیں پڑھ سکتے کیونکہ بھیڑ بھاڑ سے اس مہلک مرض کے بڑھنے کا خطرہ ہے” میزان شریعت پر کتنا باوزن ہے ۔ ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے کہ صحت مندوں کے مریض ہونے کا خطرہ بلاشبہ شریعت میں معتبر ہے اور اس کی بنا پر حکم میں تخفیف ہو جاتی ہے مگر اس خوف کا گمان غالب ہونا چاہئے۔ محض وہم کافی نہیں ہے اور گمان غالب کی تین صورتیں ہیں جو سابق میں مذکور ہوئیں یعنی تجربہ، ظاہری علامت اور طبیب حاذق مسلم کا قول۔
اب ہم ہر ایک کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی محض بھیڑ بھاڑ اور قرب واختلاط سے اس مہلک بیماری کے پھیلاو اور اضافہ کا گمان غالب ہے یا محض وہم ہی وہم ہے ۔
تو یہ بات مثل آفتاب روشن ہے کہ اگرصرف اختلاط اور بھیڑ بھاڑ سے یہ مرض بڑھتا تو اب تک ملک کا کوئی خاندان بلکہ کوئی فرد اس مرض سے محفوظ نہیں رہ پاتا کیونکہ شہر ہو یا دیہات مشاہدہ شاہد ہے کہ ایک ایک گھر بلکہ ایک ایک کمرہ اور ہال میں دس دس بیس بیس لوگ رہ رہے ہیں بلکہ شہر کی بڑی بڑی سبزی منڈیوں میں دس بیس کیا پانچ سو تک لوگ بھیڑ لگا کر سبزیاں خرید رہے ہیں مگر یہ بھیڑ اور اختلاط مرض نہیں پھیلا رہے ہیں نہ کوئی شخص محض اس بھیڑ سے بیمار ہو رہا ہے۔ یونہی بہت ساری دکانوں میں پولس سے چھپ کر لوگ چائے نوشی کر رہے ہیں مگر اس اجتماعی چائے نوشی سے بھی کسی کو مریض ہوجانے کا خوف نہیں ہو رہا ہے ،رہی بات ڈاکٹروں کی تو انہوں نے بیشک یہ کہا ہے کہ جو شخص کرونا کا مریض ہوگا اس سے اختلاط سے بیماری بڑھے گی اور چونکہ ابھی اس بیماری کی صحیح تحقیق نہیں ہوسکی ہے اور اس کے مریض کاصحیح علم نہیں ہوپا رہا ہے اس لئے سب لوگ ایک دوسرے سے دور رہیں کہ نا معلوم ان میں سے کون مریض ہو جس کے ملاپ سے دوسرے بھی مریض ہو جائیں۔ روشن خیال اور دور جدید کے ترقی یافتہ ڈاکٹر حضرات کے اس ارشاد عالی اور امتناع غالی کے بموجب لوگ اس مہلک مرض میں مبتلا ہوں نہ ہوں لیکن لوگ مرض وہم میں ضرور مبتلا ہو چکے ہیں۔
مگر خادمان فقہ پر عیاں ہے کہ ایسے وہم سے باب فقہ کا کوئی حکم نہ ثابت ہوتا ہے نہ ساقط ہوتا ہے کہ ثبوت کے لئے کم از کم ظن غالب یا بقول بعض ظن ہونا چاہئے ۔اگر شک ہو یا وہم ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ہے۔ کچھ ارشادات مبارکہ گزرچکے، مزید ملاحظہ کریں۔ سیدنا اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ تحریرفرماتے ہیں :
’’ ظن غالب شرعا معتبر اور فقہ میں مبنائے احکام مگر اس کی دوصورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جانب راجح پر قلب کواس درجہ وثوق واعتماد ہو کہ دوسری طرف کو بالکل نظر سے ساقط کردے اور محض ناقابل التفات سمجھے گویا اس کا وجود اور عدم یکساں ہو۔ایسا ظن غالب فقہ میں ملحق بیقین کہ ہر جگہ کار یقین دے گا اور اپنے خلاف یقین سابق کا پورا مزاحم اور رافع ہوگااور غالبا اصطلاح علماء میں ظن غالب واکبر رائے اسی پر اطلاق کرتے ہیں فی غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر الشک لغۃ مطلق التردد وفی اصطلاح الاصول استواء طرفی الشیٔ وھو الوقوف بین الشیئین بحیث لایمیل القلب الی احدھما فان ترجح احدھما ولم یطرح الاخر فھو ظن فان طرحہ فھو غالب الظن وھو بمنزلۃ الیقین وان لم یترجح فھو وھم (الی قولہ) دوسرے یہ کہ ہنوزجانب راجح پر دل ٹھیک ٹھیک نہ جمے اور جانب مرجوح کو محض مضمحل نہ سمجھے بلکہ ادہر بھی ذہن جائے اگرچہ بضعف وقلت یہ صورت نہ یقین کا کام دے نہ یقین خلاف کا معارضہ کرے بلکہ مرتبہ شک وتردد ہی میں سمجھی جاتی ہے کلمات علما میں کبھی اسے بھی ظن غالب کہتے ہیں اگرچہ حقیقۃ یہ مجرد ظن ہے نہ غلبہ ظن۔ ‘‘
(فتاوی رضویہ ،ج:۳،ص:۵۵۵تا ۵۵۸باب الطھارۃ)
حاشیۃ الطحطاوی میں ہے :
’’لان الظن یوجب العمل فی العملیات بخلاف الشک فانہ لایبنی علیہ حکم کما فی القھستانی‘‘ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، ص:۱۳۴)
دور رہنے کی تدبیر سبب ظنی یا وہمی
اب آئیے تھوڑی دیر گلستان فقہ کے ایک خوشنما گلدستہ کی زیارت سے آنکھوں کو سرور بخشیں اور اس کی عطر بیزی سے مشام فکر ونظر کو مشکبار کریں۔ ائمہ دین نے جسم پر عارض ضرر کو دفع کرنے کے تین اسباب بیان فرمائے ہیں جن میں ایک یقینی دوسرا ظنی اور تیسرا وہمی ہے ۔چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’الاسباب المزیلۃ للضرر تنقسم الی مقطوع بہ کالماء للعطش والخبز للجوع واللمظنون کالفصد والحجامۃ وشرب المسھل وسائر ابواب الطب یعنی معالجۃ البرودۃ بالحرارۃ ومعالجۃ الحرارۃ بالبرودۃ وھی الاسباب الظاھرۃ فی الطب والی موھوم کالکی والرقیۃ‘‘ (فتاوی عالمگیری، ج:۵، ص:۳۵۵)
ترجمہ: ازالۂ ضرر کے اسباب تین طرح کے ہیں اول یقینی جیسے پیاس کے لئے پانی بھوک کے لئے روٹی دوم ظنی جیسے فصد اور حجامت اور مسہل کا استعمال بلکہ طب کے تمام طریقے یعنی برودت کا علاج حرارت سے حرارت کا برودت سے یہ اسباب طبیہ ظاہرہ ہیں سوم وہمی مثلا داغنا اور جھاڑ پھونک ۔
ایک دوسرے سے دور رہنے اور شوشل ڈسٹینسنگ کی تدبیر دفع ضرر کے لئے نہ یقینی نہ ظنی تو لاجرم وہمی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ سارے لوگوں میں کرونا وائرس کووڈ۱۹ کا ہونا بھی موہوم ہے اور سب کے لئے شوشل ڈسٹینسنگ کی تدبیر بھی ازالۂ ضرر کے لئے سبب موہوم ہے اور امر موہوم شریعت میں مدار کار نہیں ہے۔ اس لئے محض اختلاط اور بھیڑ بھاڑ کے سبب کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا خوف نہ مرض حقیقی ہے نہ مرض حکمی، تو اس سبب موہوم سے حاضری جماعت ومسجد کا حکم ساقط نہیں ہوسکتا ہے ۔
شبہ ناشی عن دلیل کی تحقیق
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ جو شبہ ناشی عن دلیل ہووہ موہوم محض نہیں ہوتا ہے اور باب فقہ میں متعدد مقامات پر اس کا اعتبار کیا گیا ہے تو یہ بات ٹھیک ہے۔ بلاشبہ فقہائے کرام نے شبہ ناشی عن دلیل کو معتبر مانا ہے مگر ناشی کے لئے کسی منشا کی ضرورت ہے۔ اگر منشا موہوم تو ناشی موہوم اور منشا مظنون تو ناشی مظنون ہوگا۔ ناشی عن دلیل میں دلیل ہی قرینہ ہے۔ اب اگر قرینہ موہوم تو ناشی عن دلیل بھی موہوم اور قرینہ مظنون تو ناشی عن دلیل بھی مظنون ہوگا۔ مثلاً حاکم سے عداوت رکھنے والے شہر میں موجود ہیں۔ ان عداوت رکھنے والوں کو خوف ہے کہ باہر نکلیں گے تو حاکم اذیت پہنچائے گا تو یہ شبہ ناشی عن دلیل ہوگا یا اس کا برعکس ہو لیکن شہر میں ایسا کوئی حاکم نہیں جس سے عداوت رکھنے والے پائے جاتے ہوں پھر بھی کوئی شخص حاکم کے خوف سے گھر سے باہر نہ نکلے تو ضرر کا یہ خوف ناشی لا عن دلیل ہوگااور شرعا اس کا اعتبار نہیں ہوگا ۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حکومت نے وائرس سے بچنے کے لئے اولا بائیس مارچ پھر پچیس مارچ کو لاک ڈاون کا حکم نافذ کیا جو اب تک چل رہا ہے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے یہ حکم بھی نافذ ہے کہ جو شخص کرونا زدہ ملک سے ہندوستان آئے پہلے ائیرپورٹ یا داخل ملک ہونے والی جگہ پر طبی جانچ کرائے۔ اگر خدا نخواستہ وہ وائرس کا شکار ملا تو اسے فوراً ایمبولینس کے ذریعہ ہاسپٹل داخل کردیا جائے اور اگر طبی جانچ میں صحت مند نکلا تو بھی اسے بطور احتیاط چودہ دن تک طبی حفاظت کے پیش نظر بنام کورنٹائن پولس کی نگرانی میں رکھا جائے۔ گورنمنٹ نے ڈاکٹروں کے مشورہ سے یہ مدت حراست اور حبس باعزت کی مدت چودہ سے اکیس دن تک متعین کی ہے۔ اگر آدمی اس مدت میں ٹھیک رہا تو اسکے دردولت تک پہونچا دیا جائے۔ اس مدت میں ڈاکٹروں کے علاوہ کسی اور سے ملاقات حسن اتفاق ہے۔
چونکہ اس وقت بیرون ملک سے آمد ورفت کا سلسلہ غالبا بند ہے اس لئے فی الحال یہ طریقہ موقوف ہے۔ اور اگر کوئی شخص اندرون ملک وائرس زدہ مقام سے دوسرے مقام پر آئے تو طبی جانچ کے مطابق صحیح رپورٹ کے بعد بھی اسے کورنٹائن کیا جائے گا اور اگر خدانخواستہ وہ شخص مریض نکلا تو اس کے ساتھ ساتھ اس کے رابطے میں آنے والے سارے افرادکو طبی قوانین پر عمل کرنا لازم ہوگا ۔
اور اگر ایسی جگہ سے آرہا ہے جہاں پر وائرس نہیں ہے تو طبی جانچ کے بعد اسے چھوڑ دیا جائے گا مگرفی الحال ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہونے پر بہرصورت طبی جانچ کے مرحلہ سے گزرنا ہو رہا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ۲۲ ؍ مارچ سے اب تک انتہائی احتیاطی تدابیر کے ساتھ ملک کے باشندے زندگی گزار رہے ہیں۔ راقم کی معلومات کے مطابق حکومت نے ملک کے تمام اضلاع کو تین درجوں میں بانٹ رکھا ہے (۱)گرین زون  (۲)اورینج زون (۳)ریڈزون
گرین زون ان اضلاع کو کہا  جارہا ہے جہاں وائرس زدہ مریض یا تو بالکل نہیں ہیں یا مقرر تعداد سے کم ہیں ، اورینج زون جن مقامات پر بیس سے کم مریض پائے گئے ہیں ان کو کہا جا رہا ہے اور ریڈزون بیس سے زیادہ مریض پائے جانے والے اضلاع کو کہا جاتا ہے ۔
(۱ )گرین زون:
ملک میں کرونا وائرس کے حملہ کی ابتدا سے لے کر اب تک ہزاروں چھوٹے بڑے شہر اور قصبات و مواضعات ایسے ہیں جہاں کرونا وائرس کا کوئی مریض اب تک نہیں ملا ہے۔ ان مقامات میں اگر کوئی شخص باہر سے آتا ہے تو اسے طبی جانچ کے مرحلہ سے گزار کر ہی اس کے رہنے سہنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایسے محفوظ مقامات اور آبادیوں میں بھی جمعہ و جماعت کے لئے مسجد جانے پر سخت پابندی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں وہی ساری مشکلات درپیش ہوتی ہیں جن کا مشاہدہ سب کر رہے ہیں۔
(۲)   اورینج زون:
اورینج زون میں حکومت کے مطابق جو ضلع آرہے ہیں وہاں پر بھی وائرس زدہ مریض اپنے گھر پر رہنے کے بجائے ہاسپٹل میں ہوتا ہے اور جو لوگ اس کے رابطے میں ہوچکے ہوتے ہیں ان کو بھی کورنٹائن یا ہاسپٹل میں رکھ دیا جارہا ہے۔ ان اضلاع کے تحت آنے والے چھوٹے بڑے شہر قصبہ اور دیہات میں بھی محدود تعداد کے علاوہ کوئی اور شخص جمعہ وجماعت کے لئے نہیں جا سکتا ہے۔
(۳) ریڈزون:
ریڈ زون میں آنے والے اضلاع اور قصبات بلکہ تمام مواضعات کے مریضوں کو بھی ہاسپٹل میں رکھا جا رہا ہے ۔
اب اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ گرین زون میں جب اب تک کوئی مریض ملاہی نہیں ہے تو وہاں مسجد جانے میں وائرس کا خوف یقینا ’’ناشی عن دلیل ‘‘ نہیں بلکہ ناشی لا عن دلیل ہے۔ اگر ایسے مقامات پر بھی کوئی شخص وائرس کا خوف ناشی عن دلیل مانتا ہے تو یہ منشا خارج میں تو نہیں ہوگا ہاں ذہن میں موجود کرونا ہی اس خوف کا منشا ہوسکتا ہے۔ اب اگر ایسے شبہ ناشی عن دلیل کا گرویدہ اور ذہنی وائرس دیدہ خوف وائرس کے نقاب میں ملبوس ہوکر مسجد میں جمعہ وجماعت کی حاضری سے خلوت نشیں ہوتوہو مگر کروڑوںمسلمانوں سے موہوم وائرس کے موہوم ضرر سے بچنے کے لئے موہوم سبب کے پیش نظر جمعہ وجماعت کی حاضری کا حکم ساقط کرنے کی جسارت نہ کرے۔
ذرا غور کریں ! اسلام میں جماعت کی حاضری کس درجہ اہم ہے رسول پاک ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
’’صلوۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ‘‘ (صحیح البخاری، ج:۱، ص:۸۹)
ایک حدیث پاک ہے :
’’من صلی العشاء فی جماعۃ فکانما قام نصف اللیل ومن صلی الصبح فی جماعۃ فکانما صلی اللیل کلہ‘‘ (صحیح مسلم، ج:۱، ص:۲۳۲)
اور ترک جماعت پر وعیدیں سناتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’لوترکتم سنۃ نبیکم لکفرتم‘‘ (سنن ابوداؤد، ص:۵۵۰)
ایک مقام پر فرماتے ہیں :
’’الجفاء کل الجفاء والکفروالنفاق من سمع منادی اللہ ینادی الی الصلوات فلایجیبہ‘‘
یعنی ظلم پورا ظلم اور کفر ونفاق ہے کہ آدمی اللہ کے منادی کو نماز کی طرف بلاتا سنے اور حاضر نہ ہو ۔
ایک حدیث پاک میں فرمایا:
’’حَسْبُ الْمُؤْمِنِ مِنَ الشَّقَاء ِ وَالْخَیْبَۃِ أَنْ یَسْمَعَ الْمُؤَذِّنَ یُثَوِّبُ بِالصَّلَاۃِ فَلَا یُجِیبَہُ‘‘ (معجم کبیر ۲۰؍۱۸۳)
مسلمانوں کی یہ بدبختی اور محرومی بہت ہے کہ موذن کو تکبیر کہتے سنے اور اس کا بلانا قبول نہ کریں ۔
غرض حدیث سے ثابت کہ جو تکبیر سن کر حاضر جماعت نہ ہو اسے بد بخت نامراد ظالم اظلم کافر منافق فرمایا گیا بلکہ ایسے لوگوں کے گھروں میں آگ لگادینے کی بات فرمائی گئی ۔
اور نماز جمعہ کی قدر ومنزلت قرآن و حدیث اور ارشادات ائمہ سے باخبر اہل ایمان پر سورج کی طرح روشن ہے قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللّہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرُلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} ( سورہ الجمعۃ ؍۹)
اے ایمان والو ! جب نماز کے لئے جمعہ کے دن اذان دی جائے تو ذکر خدا کی طرف دوڑواور خرید و فروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
جمعہ ترک کرنے پر حدیث میں جو وعیدیں ہیں، اہل علم سے مخفی نہیں ہیں مگر افادہ عوام کے لئے ایک حدیث مبارک درج کی جاتی ہے۔ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’من ترک الجمعۃ ثلاث مرات من غیر ضرورۃ طبع اللہ علی قلبہ‘‘ (ترمذی شریف ص:۴۳۰)
جس نے تین جمعہ بلاعذر چھوڑا اللہ تعالیٰ اس کے دل میں مہر لگا دے گا ۔
احادیث میں تارک جمعہ کو منافق، خدا سے بے تعلق اور اسلام کو پیٹھ پیچھے پھینکنے والا فرمایا گیا ہے بلکہ ایک مقام پر جمعہ میں حاضر نہ ہونے والوں کے گھروں کو جلادینے کی بات فرمائی گئی ہے ۔ غرضیکہ نماز جمعہ ہو یا جماعت پنج گانہ دونوں ہی اسلامی شعار بلکہ اعلیٰ درجہ کا شعار ہیں۔ ایسی موکد ومعظم عبادت کیا محض ایک سبب موہوم سے ساقط ہو سکتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں ۔اس لئے جن مقامات پر لاک ڈاؤن سے لے کر اب تک کوئی وائرس زدہ مریض پایا ہی نہیں گیا وہاں پر بسے لاکھوں مسلمانوں سے وائرس کے ضرر کو بنیاد بنا کر جماعت وجمعہ ساقط کرنا بہت بڑی جرأت ہوگی ۔ رہا آرنج زون تو وہاں جتنے مریض پائے جاتے ہیں ان سب کو داخل ہسپتال کردیا جاتا ہے یونہی ان مریضوں کے رابطے میں آنے والے افراد کو بھی کورنٹائن کردیا جا رہا ہے ۔ اس زون میں بھی آبادیاں دوطرح کی ہیں ایک وہ خاص کر جہاں مریض پائے گئے، دوسری وہ جہاں ایسے مریض نہیں پائے گئے ہیں۔ جن آبادیوں میں مریض بالکل نہیں پائے گئے وہاں وائرس کا خوف بلاشبہ ناشی لا عن دلیل ہوگا جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔ اگر یہ خوف بالفرض کچھ ترقی کرے گا تو وہم سے بڑھ کر شک پر جاتے جاتے دم توڑتا نظر آئے گا اور اس کے اندر اتنا دم خم نہیں رہ جائے گا کہ مسلمانوں سے جماعت وجمعہ ساقط کردینے کی ہمت کرسکے ۔
رہیں اورینج زون کی وہ آبادیاں جن میں وائرس زدہ مریض پائے گئے، ان کا حکم ریڈزون کے تحت آرہا ہے۔
ریڈ زون ان علاقوں کو کہا جا رہا ہے جہاں وائرس زدہ مریض کثیر تعداد میں مل رہے ہیں۔ ایسے علاقوں میں وائرس زدہ ہوجانے کا خوف بظاہر’’ ناشی عن دلیل‘‘ معلوم ہو رہا ہے۔ میں نے اسے ’’ناشی عن دلیل ‘‘ اس لئے کہا کہ وہاں بکثرت مریضوں کا ملنا دلیل اورقرینہ سمجھا جا رہا ہے ۔
جس طرح حاکم سے عداوت رکھنے والے کے لئے ضرر کا اندیشہ ’’ناشی عن دلیل ‘‘ ہوتا ہے اسی لئے بعض حضرات نے بھیڑ بھاڑ اور خلط  ملط کو ان علاقوں میں شبہ ناشی عن دلیل مان کر مسائل کی تفریع کی ہے ۔
اس بے بضاعت کو نظریۂ تعدیۂ اسباب ِ مرض پر کافی کلام ہے مگر وقت اور حالات اس تفصیل کی اجازت نہیں دیتے۔ بس اجمالاً یہ جاننا چاہئے کہ اس نظریہ پر جدت پسند حضرات کو تو خوشی ہوسکتی ہے مگر اہل نظر اور ژرف نگاہ علمائے دین کبھی اسے قابل قبول نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس نظریہ کو صحیح تسلیم کرلینے پر وائرس زدہ علاقوں کے مسلمانوں کے حوالہ سے متعدد اہم مسائل پیدا ہوں گے۔ جو لوگ وائرس کے سبب جمعہ وجماعت ساقط کر رہے ہیں وہ جانیں، ہم تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ احکام شرعیہ میں تخفیف کے اسباب میں ایک سبب اکراہ ہے۔ چنانچہ الاشباہ والنظائر میں ہے ۔
’’اسباب التخفیف فی العبادات وغیرھا سبعۃ الثالث الاکراہ‘‘ (ج:۱، ص:۲۲۳)
اور حاکم کا اعلان بھی اکراہ میں داخل ہے درمختار میں ہے :
’’امر السلطان اکراہ وان لم یتوعدہ وامر غیرہ لا الا ان یعلم المامور بدلالۃ انہ لو لم یمتثل امرہ یقتلہ او یقطع یدہ او یضربہ ضربا علی نفسہ او تلف عضوہ منیۃ المفتی وبہ یفتی‘‘ (درمختار مع ردالمحتار، ج :۹، باب الاکراہ)
اور بہارشریعت میں ہے :
’’بادشاہ کا کہہ دینا ہی اکراہ ہے اگرچہ وہ دھمکی نہ دے کہ اس کی مخالفت میں جان جانے یا اتلاف عضو کا اندیشہ ہے۔ یوں ہی جن لوگوں سے اس قسم کا اندیشہ ہو ان کا کہہ دینا ہی اکراہ ہے ‘‘ (ج:۱۵،ص:۱۹۱)
آج حکومت ہند نے کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور دفعہ ۱۴۴ کا حکم پورے ملک میں نافذ کر رکھا ہے اور افسران کی طرف سے مسجدوں میں صرف پانچ آدمیوں پر مشتمل جماعت کی اجازت ہے۔ خلاف ورزی پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جاتے ہیں، لوگوں پر کیس درج کردیا جا رہا ہے اور ان کو جیل کی ہوا کھلائی جارہی ہے بلکہ مساجد پر تالا لگا دیا جارہا ہے ۔
کسی فاضل نبیہ اور عالم فقیہ کی کیا بات ہے، ایک عام مسلمان بھی سمجھ رہا ہے کہ وائرس کا خوف نہیں بلکہ پولس کی مار اور جیل کی جھیل کا خوف ہی لوگوں کو مسجد جانے سے مانع ہے اور ہردانشور بلکہ ہر کہتر ومہتر اس حقیقت پر متفق ہے کہ مرض کا خوف ایک موہوم ہے مگر حکومتی کاروائی کا خوف موجود متیقن یا کم از کم مظنون بغالب ظن ہے اسی لئے بالغ فکر اور دقیق نظر فقہائے کرا م اور مفتیان عظام نے اپنی قوم کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :
ہم مسلمانوں کو حکومت کے انتظامی احکام کو عمل میں لانا ضروری ہے۔ مخالفت کرکے اپنی عزت کو خطرہ میں نہ ڈالیں اور نمازوں کے سلسلہ میں خود کو اتنا ہی مکلف سمجھیں جتنا آپ کی وسعت میں ہے ارشاد جلیل ہے: {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا}
لہٰذا خوف سلطانی کے سبب جو لوگ جمعہ وجماعت میں شرکت نہیں کر پا رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ ان پر ترک جماعت وجمعہ کا گناہ نہیں ہوگا واللہ تعالیٰ اعلم
(۲) حکومت نے کرونا وائرس سے تحفظ کے پیش نظر بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لئے پورے ملک میں لاک ڈاون اور دفعہ ۱۴۴ نافذ کیا۔ چونکہ مسلمان نماز جمعہ میں بکثرت حاضر ہوتے ہیں اس لئے مسجد میں پانچ افراد سے زیادہ لوگوں کے جانے پر پابندی لگادی گئی۔ پانچ افراد سے زیادہ لوگ مسجد میں گئے تو حکومت ان کے خلاف قانونی کاروائی کرے گی ۔
حکومت کے اس اعلان کے باوجود مسلمان کثیر تعداد میں مسجد پہونچ رہے تھے جس پر پولس اور سرکاری عملہ نے سخت ردعمل ظاہر کرنا شروع کردیا۔ ائمہ ،منتظمین اور حاضرین پر ڈنڈے برسائے جانے لگے اور ان پر کیس درج ہونے لگا بلکہ مساجد پر تالا بھی لگایاجانے لگا ۔ اب جو پانچ افراد مسجد میں نماز پڑھتے تھے انہوں نے پولس کے زدوکوب مقدمہ کئے جانے اور اپنے ساتھ دیگر مسلمانوں کو ذلیل ورسوا ہونے سے بچانے کے لئے یہ تدبیر نکالی کہ جب مسجد میں مقررہ تعداد میں نمازی آجائیں تو مسجد کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ مزید نمازی نہ آسکیں اور سب کی عزت وآبرومحفوظ رہے۔ نماز پنج گانہ میں دروازہ بند کرنے سے صحت نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اس لئے اس کا کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر نماز جمعہ میں دروازۂ مسجد بند کردینے سے فقہ حنفی کے مطابق جمعہ صحیح نہیں ہوتا ہے، اس لئے یہ مسئلہ بین العلما زیر بحث ہوگیا۔ بعض حضرات نے دروازہ بند کرنے کو اذن عام کے منافی نہیں مانا تو ان کے اعتبار سے اس طرح بھی نماز جمعہ صحیح ہوئی مگر اس وقت کے جمہور علمائے ہندنے دروازہ بند کر دینے کو اذن عام کے منافی قرار دیا تو بند دروازہ کی صورت میں نماز جمعہ صحیح نہ ہونے کا حکم صادر فرمایا ۔
اذن سلطان کی وضاحت
فقہ حنفی کے مطابق صحت جمعہ کی ایک اہم شرط اذن عام ہے۔ بعض حضرات کو اذن سلطان اور اذن عام میں بھی اشتباہ ہے، اس لئے دونوں کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ فقہائے کرام نے صحت جمعہ کے شرائط میں جو اذن سلطان فرمایا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس جگہ اولا جمعہ قائم کرنا ہو وہاں بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کی اجازت ضروری ہے۔ حضور صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ رقمطراز ہیں :
’’ ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کردیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا۔ یہ ناجائز ہے اس لئے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہے لہذا وہی جمعہ قائم کرے ‘‘ (بہار شریعت ،ج:۴،ص: ۷۶۴)
اور جب کسی مقام پر شرائط کے ساتھ جمعہ قائم ہوگیا تو اب دوبارہ سلطان اسلام کی اجازت درکار نہیں ہے بلکہ وہ یا اس کے نائب اور عصر حاضر میں اعلم علمائے بلد یا قاضی شریعت نے جسے اجازت دی وہ دوسرے کو اور وہ کسی اور کو اجازت جمعہ دیدے تو بھی جمعہ صحیح ہوگا۔ درمختار میں ہے:
’’انما یشترط الاذن لاقامتھا عند بناء المسجد ثم لا یشترط بعد ذلک بل الاذن مستحب لکل خطیب‘‘ (درمختار مع درالمحتار ج:۳، ص:۱۰)
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے :
’’حاصلہ ان الاذن من السلطان انما یشترط فی اول مرۃ فاذا اذن باقامتھا الشخص کان لہ ان یاذن لغیرہ وذلک الغیر لہ ان یاذن لغیرہ وھلم جرا‘‘ (ردالمحتار ج:۳، ص:۱۰)
چند سطر بعد ہے :
’’وحاصلہ انہ لاتصح اقامتھا الا عمن اذن لہ السلطان بواسطۃ او بدونھا اما بدون ذلک فلا‘‘ (ردالمحتار ج:۳، ص:۱۱)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر جمعہ کے لئے بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کی اجازت ضروری نہیں ہے بلکہ صرف پہلی بار اقامت جمعہ کے لئے اس کی اجازت چاہئے پھر اس کے ماذون پھر اس کے ماذون کی۔ یونہی یہ سلسلہ قائم رہے گا ۔ اسی کو فتاوی رضویہ میں یوں بیان کیا گیا ہے :
’’ نماز جمعہ وعیدین مثل عام نمازوں کے نہیں کہ جسے چاہا امام کردیا نماز ہوگئی، ان کے لئے ضروری ہے کہ امام خود سلطان اسلام ہو یا اس کا مقررکردہ اور یہ نہ ہوں توبضرورت وہاں کے عام مسلمانوں نے جسے امامت جمعہ کے لئے معین و مقرر کیا ہو‘‘
(فتاوی رضویہ ج :۶،ص:۲۸۶)
اور اگر بالفرض کسی شہر کے لئے بادشاہ اسلام نے جمعہ کی مخالفت کر دی تو اب وہاں کے مسلمانوں کو خود جمعہ قائم کر لینے کا حکم ہے ۔
بہارشریعت میں ہے :
’’ بادشاہ جمعہ قائم کرنے سے منع کردے تو لوگ خودقائم کرلیں ‘‘ (بہارشریعت ج:۴،ص:۷۶۵)
ردالمحتارمیں ہے :
’’لومنع السلطان اھل مصر ان یجمعوااضرار اوتعنتا فلھم ان یجمعواعلی رجل یصلی بھم الجمعۃ‘‘ (ردالمحتار ج:۳، ص:۱۴)
اس وقت ملک ہندوستان میں اس شرط کا تعلق حکومت سے نہیں ہے بلکہ قاضیان شریعت، فقہائے اسلام اور بوجہ مجبوری عامہ مسلمین سے ہے۔ لہذا حکومت کی طرف سے جمعہ کی ممانعت اور عدم ممانعت سے اس مسئلہ پر کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
دوسری شرط اذن عام کی تشریح وتنقیح
بے شمار متون معتبرہ، شروح متداولہ مستندہ اور فتاوی فقہائے بررہ میں صحت جمعہ کے لئے اذن عام کی شرط بصراحت مذکورہے۔ گویا فقہائے احناف کے نزدیک دیگر شروط کی طرح یہ بھی ایک شرط اجماعی ہے، اسی لئے اذن عام کے بغیر جمعہ کو باطل قرار دیا گیا۔ فتاوی رضویہ میں ہے:
’’جمعہ کی ایک شرط اذن عام ہے۔ جیل میں کوئی نہیں جا سکتا تو اس میں نماز جمعہ ناممکن وباطل ہے ‘‘ (فتاوی رضویہ ج :۶،ص:۲۸۸)
اس وقت کچھ لوگوں نے یہاں ظاہرالروایت اور نادرالروایت کی بحث چھیڑ کر غالبا اس شرط کی اہمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے جو قابل قبول نہیں ہے ردالمحتار میں ہے :
’’اعلم ان ھذا الشرط لم یذکر فی ظاھر الروایۃ ولذا لم یذکرہ فی الھدایۃ بل ھو مذکور فی النوادر ومشی علیہ فی الکنز والوقایۃ والنقایۃ والملتقی وکثیر من المعتبرات‘‘ (ردالمحتار ج:۳، ص:۲۴)
اس کے تحت سیدنا اعلی حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں :
’’عدم الذکر لیس ذکر العدم ولاریب فی العمل بروایۃ النوادر فیما لم یخالف ظاھر الروایۃ فلذا جزمت بہ المتون مع وضعھا لنقل المذھب ــ‘‘ (جدالممتار ج:۳، ص:۵۹۵)
حاصل یہ ہے کہ صحت جمعہ کے لئے اذن عام شرط ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے”عام اجازت مگر شرائط جمعہ میں اذن عام کا معنی بیان کرتے ہوئے حضور صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ فرماتے ہیں :
’’ اذن عام یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے، کسی کی روک ٹوک نہ ہو ‘‘ (بہارشریعت ح:۴،ص:۴۴)
درمختار میں ہے :
’’السادس الاذن العام من الامام وھو یحصل بفتح ابواب الجامع للواردین کافی‘‘ (درمختار مع ردالمحتار ج:۳، ص:۲۴)
ترجمہ: چھٹی شرط امام کی طرف سے اذن عام کا ہونا ہے اور وہ آنے والوں کے لئے دروازہ کھول دینے سے حاصل ہو جائے گا ۔
چونکہ درمختار کی اس عبارت میں ’’من الامام ‘‘ کی قید ہے اس لئے بعض حضرات کو اشتباہ ہوگیا کہ اذن عام بھی بادشاہ کی طرف سے ہی ہونی چاہئے اور چونکہ اس وقت حکومت نے ہی جمعہ پر پابندی لگا دی ہے تو جمعہ کی شرط اذن عام مفقود ہے اس لئے کسی کا جمعہ صحیح نہیں ہے حالانکہ یہ بات خلاف واقع ہے ’’من الامام ‘‘ کی قید اذن عام کے لئے مطلقا نہیں ہے بلکہ مسئلہ قلعہ کے اعتبار سے ہے چنانچہ ردالمحتار میں ہے
’’قولہ من الامام قید بہ بالنظر الی المثال الثانی (ای لعادۃ قدیمۃ)‘‘ (ردالمحتار ج:۳، ص:۲۴)
اور اذن عام کس کی طرف سے مطلوب ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا علامہ شامی قدس سرہ رقمطراز ہیں :
’’المراد الاذن من مقیمھا لما فی البرجندی من انہ لو اغلق جماعۃ باب الجامع وصلوا فیہ الجمعۃ لایجوز اسماعیل‘‘ (ردالمحتار ج:۳، ص:۲۴)
مراد یہ ہے کہ اجازت جمعہ قائم کرنے والوں کی طرف سے ہو چنانچہ برجندی میں ہے کہ اگر لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے اور دروازۂ مسجد بند کرکے جمعہ پڑھا تو جمعہ صحیح نہیں ہوا ۔
بہار شریعت میں ہے :
’’ اگر جامع مسجد میں جب لوگ جمع ہو گئے، دروازہ مسجد بند کر کے جمعہ پڑھا، نہ ہوا ‘‘ (بہارشریعت ج:۴،ص:۷۷۰)
مزید اطمینان کے لئے فقیہ فقید المثال اعلیحضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ کا ارشاد ملاحظہ ہو آپ رقمطراز ہیں:
’’اذن کہ صحت جمعہ کے لئے شرط ہے اس کے یہ معنی کہ جمعہ قائم کرنے والوں کی طرف سے اس شہر کے تمام اہل جمعہ کے لئے وقت جمعہ حاضری جمعہ کی اجازت عام ہو‘‘ (فتاوی رضویہ ج:۶،ص: ۲۰۹)
ایک مقام پر فرماتے ہیں :
’’نمازیوں میں وہاں اقامت جمعہ مشہور نہ تھی، بطورخود ان لوگوں نے پڑھ لی اور عام اطلاع نہ ہوئی اگرچہ کسی کو آنے سے ممانعت بھی نہ کی، ان کی نماز نہ ہوئی‘‘ (فتاوی رضویہ ج:۶،ص: ۳۳۹،۳۴۰ )
ان ارشادات مبارکہ اور عبارات واضحہ سے ثابت ہوا کہ اجازت وممانعت کا تعلق حکومت اور حکام سے نہیں ہے بلکہ مقیمین جمعہ سے ہے اگر جمعہ پڑھنے والوں نے دیگر لوگوں کو مسجد آنے سے روکا نہ دروازہ بند کیا تو ان کا جمعہ صحیح ہوگا اگرچہ دوسرے لوگوں نے منع کیا یا دروازہ بند کیا ہوکہ اذن عام کے منافی وہ ممانعت ہے جو مقیمین جمعہ کی طرف سے ہو اور اگر مقیمین جمعہ ہی دیگر لوگوں کو منع کریں تو دیکھا جائے گا اگر ممانعت قابل قبول عذر شرعی کے سبب ہے تو اذن عام کے منافی نہیں ورنہ ہے ۔
فتاوی رضویہ میں ہے :
’’ روکنا کہ مطابق شرع ہے منافی اذن نہیں اور اگر ایسا نہیں تو بلاشبہ جمعہ باطل ‘‘ (فتاوی رضویہ ج :۶، ص:۲۱۲)
فقہائے کرام نے قابل قبول عذر شرعی میں فتنہ، ایذا، ضررکو شمار کرایا اس لئے موذی کو خوف ایذا اور عورتوں کو خوف فتنہ کی بنا پر مسجد سے روکنا اذن عام کے منافی نہیں کہا جاتا ہے ۔
شرعا یہ عذر کب قابل قبول ہوتے ہیں:
اگرچہ گزشتہ صفحات میں یہ تفصیل گزر چکی ہے مگر مزید وضاحت کے لئے یہ سطریں بھی حاضر ہیں:
ذہن انسانی میں آنے والی شی کے لئے فقہائے کرام نے پانچ درجے کئے ہیں اول وہم دوم شک سوم ظن چہارم ظن غالب پنجم یقین ۔حاشیہ الاشباہ والنظائر معروف بہ غمز عیون البصائر میں ہے :
’’ثم الیقین طمانیۃ القلب علی حقیقۃ الشی والشک لغۃ مطلق التردد و فی اصطلاح الاصول استواء طرفی الشی وھو الوقوف بین الشیئین بحیث لایمیل القلب الی احدھما فان ترجح احدھما ولم یطرح الاخر فھوظن فان طرحہ فھو غالب الظن وھو بمنزلۃ الیقین وان لم یترجح فھو وھم‘‘
اسی میں ہے :
’’والظن تجویز امرین احدھما اقوی من الاخر والوھم تجویز امرین احدھما اضعف من الاخر والشک تجویز امرین لامزیۃ لاحدھما علی الاخرانتھی‘‘ (ج:۱، ص:۱۸۳)
اسی میں ہے :
’’الترددان کان علی السواء فھو الشک وان کان احدھماراجحا فالراجح ظن والمرجوج وھم‘‘ (حوالہ سابق ص:۱۹۲)
ابواب فقہ میں ان پانچوں میں سے ظن ،ظن غالب اور یقین مدارحکم ہیں شکوک واوہام پر احکام شرعیہ کی بنیاد نہیں ہے نہ ان پر کوئی حکم شرع لگایا جاسکے ۔ چونکہ ظن اور ظن غالب میں دقیق فرق ہوتا ہے جسے سطحی نظر سے نہیں بلکہ دقیق فکر سے ہی جانا جاتا ہے۔ اسی لئے فقہائے کرام ظن کو بھی ظن غالب کہہ دیتے ہیں۔ دونوں میں خط امتیاز کھینچتے ہوئے سیدنا اعلیحضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ جہاں افضل اور بہتر (احسن)کا حکم ہو وہاں ظن غالب سے صرف ظن مراد ہے اور جہاں وجوب ولزوم کا حکم ہووہاں ظن غالب مراد ہوتا ہے آپ کا ارشاد مبارک ’’مجلس شرعی کے فیصلے‘‘میں یوں درج ہے ۔
’’ظن غالب شرعا معتبر اور فقہ میں مبنائے احکام مگر اس کی دوصورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جانب راجح پر قلب کو اس درجہ وثوق واعتماد ہوکہ دوسری طرف کو بالکل نظرسے ساقط کردے اور محض ناقابل التفات سمجھے گویا اس کا عدم و وجود یکساں ہو۔ ایسا ظن غالب فقہ میں ملحق بہ یقین ہے اور غالبا اصطلاح علما میں غالب ظن اور اکبر رائے اسی پر اطلاق کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ہنوز جانب راجح پر دل ٹھیک ٹھیک نہ جمے اور جانب مرجوح کو محض مضمحل نہ سمجھے بلکہ ادہر بھی ذہن جائے اگرچہ بضعف وقلت یہ صورت نہ یقین کا کام دے نہ یقین خلاف کا معارضہ کرے بلکہ مرتبہ شک وتردد ہی میں سمجھی جاتی ہے ۔
کلمات علما میں کبھی اسے بھی ظن غالب کہتے ہیں اگرچہ حقیقتایہ مجر دظن ہے، نہ غلبۂ ظن ہاں اس قسم کا اتنا لحاظ کرتے ہیں کہ احتیاط کو بہتر اور افضل جانتے ہیں نہ کہ اس پر عمل واجب ومتحتم ہوجائے ملتقطا۔‘‘ ( مجلس شرعی کے فیصلے، ناشر مجلس شرعی مبارکپور ص:۱۲۳،۱۲۴)
اس وضاحت کے بعد ہر کسی کو یہ یقین ہو جانا چاہئے کہ ظن یا ظن غالب سے نیچے وہم یا شک کبھی مدار حکم نہیں ہوتا ہے۔ مسائل فقہیہ کو یقینیات و ظنیات میں تو تقسیم کیا جاتا ہے مگر شکیات ووہمیات میں لے جانا جماعت مقلدین کا نہیں غیر مقلدین مباحیین کا طریقہ ہے ۔
عہد صحابہ کرام سے لے کر اب تک مسائل فقہیہ کا دارومدار ظن ،ظن غالب اور یقین پر ہی رکھا گیا ہے اور جو بھی مسائل تغیر پزیر ہوئے ان میں کہیں شک ووہم کا دخل نہیں ’’مجلس شرعی کے فیصلے‘‘میں ہے :
’’بدلنے کی بنیاد ہے (۱)ضرورت (۲)حاجت (۳)عموم بلوی (۴)عرف (۵)تعامل (۶) دینی ضرورت مصلحت کی تحصیل (۷)کسی فساد موجود یا مظنون بظن غالب کا ازالہ بلکہ عہد رسالت و عہد صحابہ کے بہت سے احکام جو شرعی بنیادوں میں سے کسی بنیاد پر قائم ہیں وہ بھی ان ساتوں بنیادوں پر بدل سکتے ہیں بلکہ بہت سے احکام تو بدل چکے ہیں۔‘‘(حوالہ سابق ۴۶۳)
اس طویل گفتگوسے مثل آفتاب وماہتاب روشن ہوجاتا ہے کہ شریعت طاہرہ میں جو اعذار قابل قبول ہوتے ہیں وہ کم ازکم مظنون ہوتے ہیں جنہیں مظنون بظن غالب بھی کہہ دیا جاتا ہے اور مسلمان کے بچے بچے پر نماز جمعہ کی قدرومنزلت واضح ہے۔ اس کی فرضیت سورج کی طرح عیاں ہے بلکہ اسکا اعلی ضروریات دین میں ہونا مسلم ہے۔ ایسی اہم عبادت سے کسی ایک بھی فرد کو منع کرنا بہت بڑی بات ہے، یہاں تو کروڑوں مسلمانوں کو منع کرنا ہے اور صرف منع ہی نہیں بلکہ اس منع کو جمعہ کی ایک اہم شرط اذن عام کے خلاف نہ ہونا بھی ثابت کرنا ہے ۔ غور فرمائیں! کیا کوئی عقلمند یہ جرأت کرے گا کہ سارے مسلمانوں سے محض شک یا وہم کے سبب جمعہ ساقط کردے اور ان سب کو مسجد سے روکنے میں اذن عام پر کوئی فرق نہ پڑے ؟
بلاشبہ یہ کام وہی کرسکتا ہے جو حالات زمانہ سے اس قدر مرعوب ہو کہ خود بدلنے کی بجائے احکام شریعت کو بدلنے کی ذہنیت رکھتا ہو۔ اس جگہ ڈاکٹر اقبال کا کہا میں یوں کہتا ہوں:
خود  بدلتے  نہیں  احکام  بدل  دیتے   ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان جہاں بے توفیق
ہم نے جواب نمبر ایک میں یہ واضح کر دیا ہے کہ لوگوں کے اختلاط کے سبب وائرس کا ضررنہ مظنون ہے نہ متیقن بلکہ موہوم ہے۔ لہذا نماز جمعہ سے ممانعت کے لئے اسے سبب قرار دینا درست نہیں ہے۔ ہاں حکومت کی طرف سے ضرروایذا موجود یا مظنون بظن غالب ہے اس لئے گورنمنٹی ضرر سے بچنے کے لئے جو لوگ جمعہ میں حاضر نہ ہوسکیں وہ معذور ہیں ۔ اب میں ان دلائل کا جائزہ لینا چاہوں گا جن کو بنیاد بنا کر بعض حضرات نے کروڑوں مسلمانوں کو جمعہ سے روکنے کا جواز فراہم فرمایا ہے ۔
پہلی دلیل کا تحقیقی جائزہ
کہا جا رہا ہے کہ:
’’ مسجد سے ممانعت کی بنیاد نماز یا جماعت نماز ہو تو یہ اذن عام کے منافی ہوگی اور اگر اس کی بنیاد فتنے یا دشمن سے ضرر کا اندیشہ ہو تو وہ اذن عام کے منافی نہ ہوگی لہٰذا جمعہ صحیح ہوگا اور موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن اور دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کی بنیاد مہلک وائرس سے اندیشۂ ضرر ہے، نماز وجماعت نماز نہیں۔ لہٰذا باب مسجد بند ہونے کی صورت میں نمازجمعہ صحیح و درست ہوگی ۔‘‘
اس حکم کی تائید میں درمختار کا درج ذیل جزئیہ پیش کیا گیا ہے:
’’فلا یضر غلق باب القلعۃ لعدواولعادۃ قدیمۃ لان الاذن العام مقرر لاھلہ وغلقہ لمنع العدو لا المصلی نعم لو لم یغلق لکان احسن کمافی مجمع الانھر معزیا لشرح عیون المذاھبہ‘‘
پھر اس کی تشریح وتفہیم میں کہا گیا ہے کہ :
’’ درمختار کی اس عبارت میں ’’دشمن کے اندیشہ ‘‘سے مراد دشمن کے آجانے کا ’’شک ناشی عن دلیل‘‘ہے، ظن غالب نہیں کیونکہ شرح عیون المذاھب مجمع الانھر اور درمختار تینوں میں باتفاق رائے یہ حکم مذکور ہے ’’لو لم یغلق لکان احسن‘‘ دروازہ بند نہ کیا جائے تو احسن (زیادہ اچھاہے ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ دروازہ بند کرنا حسن ہے احسن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دروازہ کھلارکھنا اذن سے بعید تر ہے۔ دشمن کے حملے کا یقین یا ظن غالب ہوتا تو دروازہ بند کرنا صرف احسن نہ ہوتا بلکہ واجب ہوتا۔ ‘‘
اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ضرر کا اندیشہ ظن غالب کی حد تک نہ ہو بلکہ اس سے کم درجے یعنی شک ناشی عن دلیل کے درجے کا ہو تب بھی دروازہ بند کرنا منافی اذن عام نہیں ہے ۔
اس پر عرض ہے کہ جو’’شک ناشی عن دلیل ‘‘ہوگا وہ وہم یا شک تو ہو نہیں سکتا ہے ورنہ ناشی عن دلیل کا کیا مطلب ہوگا؟ لامحالہ وہ ظن ہوگا یا ظن غالب ۔ فقہائے کرام کے کلمات مبارکہ یقینا بڑے معانی ومطالب سے پر ہوتے ہیں اور بتوفیق الٰہی ان کی تہ تک پہونچنے والے بہت خوش نصیب ہوتے ہیں۔ اس ہیچمداں نے جب ’’شک ناشی عن دلیل‘‘کے الفاظ پر غور کرنا شروع کیا تو بہت سے انکشافات ہوئے۔ قارئین کرام کی ضیافت طبع کے لئے کچھ حاضر ہے۔ یہ اصطلاح چار کلمات کا مجموعہ ہے (۱)شک (۲)ناشی (۳)عن (۴) دلیل ۔
شک کی تعریف و توضیح گزر چکی ہے۔ کلمہ ناشی کا مطلب ہے پیدا ہونے والا اور عن دلیل کا مطلب ہے دلیل سے۔ مفہوم یہ ہوگا کہ جو شک کسی دلیل سے پیدا ہو وہ بھی مدار حکم ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں شبہ مدار حکم بنا یا وہ دلیل۔ آئیے کلمہ’’عن‘‘ کی حقیقت پر غور کرکے منزل مقصود تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ توضیح تلویح میں ہے :
’’قولہ وعن اما لانتزاع الحکم یعنی ان کلمہ عن تدل علی انتزاع الشی عن الشی وانفصالہ عنہ لانھا للبعد والمجاوزۃ‘‘ (التوضیح والتلویح ج:۲، ص:۳۰۹)
یعنی ماتن کا قول ’’وعن اما لانتزاع الحکم‘‘ یعنی کلمہ عن ایک شی سے دوسری شی کے انتز اع اور انفصال پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ وہ بعد اور مجاوزت کے لئے ہے۔‘‘
اس ارشاد کی روشنی میں کہا جائے گا کہ جو حکم کسی ’’شک ناشی عن دلیل‘‘ پر ہوگا وہاں مدار حکم شک سے تجاوز کرکے اس دلیل پر منتہی ہوگا اور مدار حکم وہ شک نہیں بلکہ وہ دلیل ہوگی اور دلیل یا تو ظنی ہوگی یا یقینی۔ بہر حال جو ’’شک ناشی عن دلیل‘‘ ہوگا وہ کم از کم مظنون ہوگا جسے فقہائے کرام مظنون بظن غالب بھی کہہ دیتے ہیں ۔ میں نے دلیل کو ظنی اور یقینی میں اس لئے محصور کیا ہے کہ فقہائے کرام کے یہاں دلیل قطعی اور ظنی کا ہی اعتبار ہے، دلیل شکی اور وہمی کا ان کے یہاں کوئی گزر نہیں ہے۔ اسی لئے فقہا کے یہاں قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ کی اصطلاح تو ہے مگر شکی الدلالۃ کی اصطلاح نہیں بولی جاتی ہے ۔
اس میں نکتہ یہ ہے کہ جس دلیل کا وجود مشکوک ہوگا اس کی دلالت بھی مشکوک ہوگی اور مشکوک درمشکوک کی صورت میں کوئی حکم نہیں لگ سکتا ہے’’ فواتح الرحموت‘‘ میں ہے :
’’الدلالۃ فرع الثبوت واذ فی الثبوت شبھۃ ففی الدلالۃ بالطریق الاولی ففیہ شبھتان شبھۃ فی نفس ثبوت الخبر وشبھۃ فی الدلالۃ‘‘ (ج:۱، ص:۳۶۶)
اس تنقیح سے واضح ہو گیا کہ ’’شک ناشی عن دلیل‘‘ مشکوک وموہوم نہیں بلکہ مظنون ہوتا ہے جسے کبھی مظنون اور کبھی مظنون بظن غالب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس توضیح کے بعد درمختار کی مذکورہ عبارت پر غور کرتے ہیں۔ اس میں دو مسئلہ بیان کیا گیا ہے :
(۱) قلعہ کا دروازہ اگر دشمن کو روکنے کے لئے بند کیا گیا تو اذن عام کے منافی نہیں ۔
(۲) قلعہ کا دروازہ اگر عادت قدیمہ کے مطابق بند کیا گیا ہے تو بھی اذن عام کے منافی نہیں ۔
پہلے مسئلہ کی دلیل ’’وغلقہ لمنع العدولا المصلی‘‘ ہے یعنی دروازہ دشمن کو روکنے کے لئے بند کیا گیا ہے، نمازی کے لئے نہیں، لہذا اذن عام کے منافی نہیں۔ اور دوسرے مسئلہ کی دلیل ’’لان الاذن العام مقرر لاھلہ‘‘ ہے یعنی قلعہ والوں کے لئے اذن عام قلعہ بند کرنے کی صورت میں بھی ثابت ہے ،تو اذن عام کے منافی نہیں۔ اس کے بعد درمختار میں ہے ’’نعم لولم یغلق لکان احسن کما فی مجمع الانھر معزیا لشرح عیون المذاھب‘‘  یعنی اگر دروازہ بند نہ کیا جائے تو زیادہ اچھا ہے جیسا کہ مجمع الانھر میں شرح عیون المذاہب کے حوالہ سے ہے۔
بعض حضرات نے اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’ اگر ضرر کا خوف ’’ناشی عن دلیل ‘‘ ہو تو بھی دروازہ قلعہ بند کرنا جائز ہے اور اگر خوف مظنون بظن غالب ہو تو بند کردینا واجب ہے اور دونوں صورتوں میں اذن عام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اسی طرح لوگوں کی بھیڑ بھاڑ سے وائرس کا خوف اگرچہ مظنون بظن غالب نہیں ہے مگر یہ خوف ضرر ناشی عن دلیل ضرور ہے تو اس ضرر سے بچنے کے لئے بھی دروازۂ مسجد بند کردینا جائز ہوگا اور اس سے اذن عام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
مگر اس تشریح پر چند وجہوں سے کلام ہے ۔
(۱) شک ناشی عن دلیل موہوم و مشکوک نہیں بلکہ مظنون ہوتا ہے اور اگر خوف مظنون ہو تو دروازہ بند کرنا واجب ہے۔ لہذا شک ناشی عن دلیل کا سہارا لے کر جواز کا قول معتبر نہیں ہے بلکہ اس صورت میں بھی دروازہ بند کردینا واجب ہی ہوگا ۔
(۲)  دروازۂ قلعہ بند کردینے کی صورت میں بھی اذن عام اس لئے متحقق ہے کہ قلعہ کے اندر مسجد یا جا ئے نماز کے لئے جو دروازہ ہے وہ نہیں بند ہوتا ہے۔ خاتم المحققین علامہ شامی قدس سرہ نے اسے اپنے الفاظ میں یوں بیان فرمایا:
’’لان الاذن العام مقرر لاھلہ ای لاھل القلعۃ لانھا فی معنی الحصن‘‘ (ردالمحتار ج:۳، ص:۲۴)
ترجمہ :کیونکہ اہل قلعہ کے لئے اذن ثابت ہے۔ ضمیر کا مرجع قلعہ ہے کہ وہ حصن کے معنی میں ہے :
تو قلعہ کا دروازہ بند کرنا خواہ جائز ہو یا واجب اس سے اذن عام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ قلعہ میں رہنے والوں کے لئے دخول مسجد سے کوئی چیز مانع نہیں ہے جبکہ مسجد کا دروازہ بند کر دینے سے کوئی بھی نمازی اندر نہیں جا سکتا ہے ۔ یونہی دروازہ قلعہ عادت قدیمہ کے پیش نظر بند ہو تو یہاں نہ کوئی ضرر ہے نہ دشمن کا خوف پھر بھی اذن عام متحقق ہے۔ وجہ وہی ہے کہ قلعہ کے اندر والوں کے لئے مسجد میں جانے سے کوئی شی مانع نہیں ہے ۔ اگر باب مسجد کو باب قلعہ پر قیاس کیا جائے یا اس کی نظیر بنائی جائے تو لازم آئے گا کہ بلا خوف ضرر بھی مسجد کا دروازہ بند کرنا منافی اذن عام نہیں ہوگا حالانکہ کوئی فقیہ اس کا قائل نہیں۔ اس لئے باب قلعہ سے باب مسجد پر استدلال درست نہیں ہے۔
(۳) دشمن سے خوف ضرر اور وائرس سے خوف ضرر کو ایک درجہ اور ایک حکم میں نہیں رکھا جاسکتا ہے کیونکہ
(الف) دشمن سے خوف ضرر کا عذر اختیاری ہے جو دشمن کے سبب پیدا ہوتاہے اور وائرس کا خوف ضرر عذر سماوی ہے جو بیماری کے سبب پیداہوتا ہے۔ تبیین الحقائق میں ہے :
’’کل واحد منھا (السھو والمرض) من العوارض السماویۃ‘‘ (ج:۱، ص:۴۸۷)
فتح القدیر میں ہے:
’’وھھنا اختیاری للعباد وھو کفر الکافر وظلم الظالم‘‘ (ج:۲، ص:۹۷)
(ب) دشمن ضرر کا سبب بالکل ظاہر ہے جبکہ وائرس ضرر کا سببِ ظاہر نہیں ہے ۔
(ج) دشمن کا وجود متیقن یا مظنون بظن غالب ہے جبکہ وائرس کا وجود متیقن یا مظنون بظن غالب نہیں ہے ۔
(د) دشمن کا خوف ضرر دروازہ بند کرلینے پر معدوم ہوجائے گا جبکہ وائرس کا خوف ضرر بند کرنے پر بھی موجود ہے کہ جس طرح پچاس اور سو افراد کا اختلاط یونہی پانچ اور چھ کا اختلاط تو وہاں غلق باب کے سبب خوف ضرر معدوم اور یہاں غلق کے بعد بھی موجود ہے ۔
(ھ) غلق باب قلعہ سے ضرر سے تحفظ یقینی جبکہ دروازہ مسجد بند کر لینے سے اندر کے لوگوں کا وائرس کے ضرر سے تحفظ غیر یقینی ۔
(و) دشمن قلعہ کے باہر ہے تو سبب ضرر باہر ہے۔ یہاں بقول ڈاکٹرس اختلاط سبب ضرر ہے جو باہر بھی ہے اور اندر بھی ۔
(ز) دشمن سے سبب عداوت کفر اور ظلم ہے تو قلعہ کے اندر اور باہر کا سبب ضرر جدا جدا ہے جبکہ مسجد کے اندر اور باہر سب کے لئے سبب ضرر ایک یعنی اختلاط ہے ۔
ان وجوہات کے پیش نظر منع عدو والے جزئیہ سے استدلال کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔
(۴) درمختار کی عبارت ’’لکان احسن‘‘ کا تعلق دونوں مسئلوں سے نہیں بلکہ صرف عادۃ قدیمہ سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر دروازہ قلعہ بند کرنے کا رواج نہ ہو تو احسن اور زیادہ اچھا ہے جس کے شواہد درج ذیل ہیں۔
(۱) خاتم المحققین علامہ شامی قدس سرہ اس عبارت کے تحت فرماتے ہیں :
’’قولہ لکان احسن‘‘ لانہ ابعد عن الشبھۃ لان الظاھر اشتراط الاذن وقت الصلاۃ لاقبلھا لان النداء للاشتھار کما مروھم یغلقون الباب وقت النداء اوقبیلہ فمن سمع النداء وارادالذھاب الیھا لایمکنہ الدخول فالمنع حال الصلاۃ متحقق ولذا استظھر الشیخ اسماعیل عدم الصحۃ‘‘ (ردالمحتار ج:۳،ص:۲۴)
اس عبارت میں ’’وھم یغلقون الباب وقت النداء اوقبیلہ‘‘ جملہ اسمیہ ہے جو دوام اور استمرار پر دلالت کرتا ہے اور عادت کا تحقق اسی صورت میں ہوتا ہے جبکہ کوئی فعل بطور دوام واستمرار انجام دیا جائے۔ یہ علت اس بات کا قرینہ ہے کہ’’ لکان احسن‘‘ کا تعلق صرف عادۃ قدیمہ سے ہے ۔
(۲) حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار میں ہے :
’’(لکان احسن) ھذا اذا کان القفل للعادۃ القدیمۃ اما اذا کان لمنع عدویخشی دخولہ وھم فی الصلاۃ فالظاھر وجوب الغلق اھ حلبی‘‘ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ج:۱، ص:۳۴۴، دارالطباعۃ قاہرہ، مصر)
یعنی بند نہ کرنا احسن ہے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب دروازہ عادۃ قدیمہ کے طور پر بند ہو اور جب دشمن کے حالت نماز میں اندر داخل ہوجانے کے خوف سے بند کرنا مقصود ہوتو ظاہر یہ ہے کہ دروازہ بند کرنا واجب ہے ۔
اس سے صاف ظاہر ہواکہ ’’لکان احسن‘‘ کاتعلق خوف عدوسے نہیں ہے بلکہ عادت قدیمہ سے ہے۔ لہذا خوف ناشی عن دلیل سے تعلیل باطل وعاطل اور علیل ہے اور اس سے وائرس کے خوف موہوم ومشکوک پر استدلال محض تخیل ہے ۔ اس مقام پر میں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ’’طحطاوی‘‘ کی پوری عبارت کو نظر انداز کرنا، صرف بعض کو لے لینا اور پھر ’’شبہ ناشی عن دلیل‘‘ کی تاویل کا اختراع کرنا کسی بہت ذمہ دار کا کام نہیں ہے۔
طحطاوی علی الدر سے استدلال پر ایک نظر !
بعض اہل علم نے فرمایا کہ اگر خوف ضرر کا شک ناشی عن دلیل ہو تو بھی دروازہ قلعہ بند کرنا جائز ہے۔ اس سے اذن عام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے اپنا یہ دعوی پہلے ’’لولم یغلق لکان احسن ‘‘ سے ثابت فرمایا اور پھر اسے طحطاوی علی الدر سے موئد کیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’ دشمن کے حملے کا یقین یا ظن غالب ہوتا تو دروازہ بند کرنا صرف احسن نہ ہوتا بلکہ واجب ہوتا۔ طحطاوی علی الدر ج:۱،ص:۳۴۴،کے ایک جزئیہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ عبارت یہ ہے :
’’امااذا لکان لمنع عدو ویخشی دخولہ وھم فی الصلاۃ فالظاھر وجوب الغلق‘‘
ترجمہ: جب دروازہ بند کرنے سے مقصوددشمن کو روکنا ہوکہ عین حالت نماز میں دشمن کے آنے کا خطرہ ہے تو ظاہر یہ ہے کہ دروازہ بند کرناواجب ہے ۔
کلمہ ’’اذا‘‘ ایسی شرط کے لئے آتا ہے جس کا وجود محقق ہو مشکوک نہ ہو چناں چہ مسلم الثبوت وفواتح الرحموت میں ہے :
’’اذا ظرف زمان ویجی للشرط محققا فلا یدخل علی ما ھوعلی خطرالوجود الا لنکتۃ اھ’’ (مسلم الثبوت وفواتح الرحموت ج:۱، ص:۲۳۵)
یہاں اذا کی وجہ سے خشیت نے گمان غالب کا فائدہ دیا تو اس عبارت کا حاصل یہی ہوا کہ نماز کی حالت میں دشمن کے آجانے کا ظن غالب ہوتو دروازہ بند کردینا واجب ہے ۔
لہٰذا عیاں ہو گیا کہ درمختار وغیرہ میں جہاں دروازہ بند کرنا احسن بتایا گیا ہے وہاں دشمن کے حملے کا یقین یا ظن غالب نہیں ہے۔
ہم نے ’’لکان احسن ‘‘ سے متعلق پوری گفتگو اور اس عبارت سے استدلال کی حیثیت ظاہر کردی ہے۔ اب مندرجہ بالا استدلال پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
اس استدلال میں کہا گیا ہے کہ کلمہ اذا  ایسی شرط کے لئے آتا ہے جس کا وجود محقق ہو، مشکوک نہ ہو اوربطور ثبوت مسلم الثبوت کی عبارت درج کی گئی ہے۔ اب مسلم الثبوت کی پوری عبارت ملاحظہ ہو:
’’اذا ظرف زمان ویجی للشرط محققا فلا یدخل علی ما ھوعلی خطرالوجود الا لنکتۃ وحینئذ ای حین مجیئہ للشرط فقد یسقط عنھا الوقت فتکون حرفا کان‘‘ (مسلم مع فواتح الرحموت ج:۱، ص:۲۲۹)
ترجمہ: اذا ظرف زمان ہے اور کبھی ایسی شرط کے لئے آتا ہے جس کا وجود محقق ہو تو جس کا وجود مشکوک ہو اس پر داخل نہیں ہوتا ہے۔ ہاں جب کوئی خاص نکتہ ہو اور جب شرط کے معنی میں ہوگا تو وقت کا معنی ملحوظ نہیں ہوگا اور کلمہ’’ ان‘‘ کی طرح حرف کی منزل میں ہوجائے گا ۔
یہی بات نورالانوار میں ہے :
’’انھا مشترکۃ بین الظرف والشرط واذا جوزی بھا سقط عنھا الوقت کانھا حرف الشرط‘‘ (ص: ۱۴۳)
اذا ظرف اور شرط میں مشترک ہے اور جب معنی شرط میں ہوگا تو حرف شرط کی طرح اس سے وقت کا مفہوم ساقط ہوجائے گا ۔
ان عبارتوں سے چند باتیں معلوم ہوئیں۔
(۱) کلمہ’’اذا ‘‘ ظرف زمان اور شرط دونوں معنی میں آتا ہے۔
(۲) جب معنی شرط میں ہوگا تومثل ’’ان‘‘ہوگا ۔
(۳) معنی شرط کی صورت میں’’شرط محقق‘‘ ہونی چاہئے ۔
(۴) معنی شرط لینے میں وقت کا لحاظ نہیں ہوگا ۔
استدلال میں صرف معنی شرط کا اظہار کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ صرف اسی ایک معنی کے لئے آتا ہے اسی لئے کہا گیا کہ طحطاوی کی عبارت میں کلمہ اذا سے غالب گمان کا فائدہ حاصل ہوا ۔ جبکہ طحطاوی اور مسلم الثبوت کی عبارت کا ترجمہ خود اس بات کی تردید کررہے ہیں اور دونوں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ طحطاوی میں اذا شرط کے لئے نہیں بلکہ محض ظرف زمان کا معنی دے رہا ہے شواہد ملاحظہ ہوں :
(۱) طحطاوی کی عبارت کا ترجمہ کیا گیا ہے :جب دروازہ بند کرنے سے مقصود الخ یہ لفظ’’جب ‘‘ ظرف زمان کو ہی متعین کر رہا ہے نہ کہ معنی شرط کوکیونکہ شرط کی صورت میں معنی وقت ساقط ہو جاتا ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ یہاں ’’اذا ‘‘ محض ظرف زمان کے لئے ہے، شرط کے لئے نہیں ہے اور جب شرط کے لئے نہیں تو محقق ومشکوک کی بحث سے کچھ حاصل نہیں ہے ۔
(۲) طحطاوی میں’’ اذا‘‘ کا دخول ’’کان‘‘ پر ہے ’’یخشی‘‘ پر نہیں ہے۔ ’’یخشی ‘‘ تو ’’عدو‘‘ کی صفت کے طور پر آیا ہے۔ اور جب وہ ’’یخشی ‘‘ پر داخل ہی نہیں تو خشیت کا یقین یا گمان غالب کا معنی کہاں سے آیا؟ پھر مقام غور ہے، کہا گیا کہ اذا شرط محقق کے لئے آتا ہے اور پھر لکھا جا رہا ہے کہ اذا نے غالب گمان کا فائدہ دیا۔ جب وہ شرط محقق کے لئے ہے تو گمان غالب کا فائدہ دے گا یا یقین کا؟ اور اگر لفظ محقق دونوں کو شامل ہے تو یہاں گمان غالب کا معنیٰ کیسے متعین ہوا؟
یہاں یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ طحطاوی میں ’’لمنع عدویخشی‘‘ ہے ’’ویخشی‘‘ نہیں ہے کہ ’’کان‘‘پر عطف ہو جائے۔ یہ اور بات ہے کہ غالباً  ازراہ تحقیق واوعاطفہ بڑھا کر ’’ایجاد بندہ‘‘ کے طور پر غالب گمان کا معنی لے لیا گیا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ طحطاوی کی عبارت میں ’’اذا‘‘ شرط محقق کے لئے نہیں ہے بلکہ محض ظرفیت کا معنی دینے کے لئے ہے اور اس کا دخول ’’کان‘‘ پر ہے یخشی پرنہیں۔ لہذا اس عبارت سے ’’خشیت کا غالب گمان‘‘ معنی پیدا کرنا صحیح نہیں ہے ۔
پھر شک ناشی عن دلیل ہو یا ظن غالب، سب میں شی کا وجود کم ازکم مظنون ہوتا ہے جب کہ ملک کے ہزاروں علاقوں میں وائرس کا خوف محض موہوم ہے تو ان مقامات پر دروازہ مسجد بند کرنے کے لئے درمختار کی عبارت مذکورہ سے استدلال کسی طرح درست نہیں ہو سکتا ہے ۔
دوسری دلیل کاتحقیقی جائزہ
اس دلیل میں کہا گیا :
عورتوں کو اندیشۂ فتنہ کی وجہ سے مسجد آنے کی ممانعت ہے پھر بھی اذن عام برقرار اور جمعہ صحیح ہوتا ہے۔ ایسے ہی وائرس سے اندیشۂ فتنہ وضرر کے باعث عامہ ناس کو ازدحام سے ممانعت ہے اوراس سے اذن عام پر کوئی اثر نہ پڑے گا اور جمعہ صحیح ہوگا۔ فتنہ عورتوں سے بھی ہوسکتا ہے اور عورتوں پر بھی ہوسکتا ہے اور خیرالقرون میں دونوں طرح کے فتنے نہ واقع تھے ،  نہ مظنون بظن غالب ، بلکہ مشکوک ومشتبہ تھے۔ ہماری گفتگو اسی قرن مقدس تک محدود ہے۔
عہد فاروقی میں عورتوں کی ممانعت کی تفصیل دومختلف زاویے سے
پہلا زاویہ
بیشک خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد مبارک میں عورتوں کو مسجد میں جمعہ وجماعات کی حاضری سے منع فرمادیا تھا مگر یہ ممانعت کیسی تھی ؟ تحریمی ، تنزیہی یا ارشادی ؟ کیونکہ نھی متعدد معانی میں مستعمل ہے۔ نورالانوار میں ہے:
’’ان النھی کالامر فی کونہ من الخاص لانہ لفظ وضع لمعنی معلوم وھو التحریم‘‘ (ص:۶۵)
قمرالاقمار میں ہے:
’’ قد یستعمل النھی مجاز الغیر التحریم کالارشاد والدعاء‘‘ (حوالہ سابق)
اگر ممانعت بطور حرام یا کراہت تحریمی ہو تو اس کا ارتکاب صرف ممنوع ہی نہیں بلکہ گناہ ہے ۔تلویح میں ہے :
’’والحرام یعاقب علی فعلہ‘‘ (ج:۲،ص:۲۷۵)
توضیح میں ہے :
’’حرمۃ الفعل من قبیل منع الرجل عن شیٔ‘‘ (حوالہ سابق)
اسی میں ہے :
’’والمکروہ نوعان مکروہ تنزیہ وھو الی الحل اقرب ومکروہ کراھۃ تحریم وھو الی الحرمۃ اقرب‘‘ (ص۲۷۷)
اب اگر عہد فاروقی کی ممانعت کو تحریم یا کراہت تحریم پر محمول کریں تو ماننا پڑے گا کہ خواتین کا مسجد نبوی میں جانا ناجائز وگناہ تھا حالانکہ اس ممانعت کے بعد بھی خواتین مسجد نبوی میں حاضر ہوتی تھیں ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں :
’’ اس زمانۂ خیر میں محض عورتوں کی ممانعت قطعی جزمی نہ تھی جس کے سبب بیبیوں سے حاضری مسجد اور گاہ گاہ زیارت بعض مزارات بھی منقول ۔ صحیحین میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے ہے (نھینا عن اتباع الجنائز ولم یعزم علینا) ہمیں جنازوں کے پیچھے چلنے سے منع فرمایا گیا مگر قطعی ممانعت نہ تھی۔ اسی پر غنیہ کی اس عبارت میں فرمایا کہ یہ اس وقت تھا جب حاضری مسجد انہیں جائز تھی، اب حرام اور قطعی ممنوع ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ ج:۷،ص: ۳۶۴، ۳۶۵)
تو کیا ’’معاذاللہ صد بار معاذاللہ ‘‘ صحابیات فعل حرام کا ارتکاب کرتی تھیں؟ اور پھر سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی بارعب شخصیت یہ سب دیکھ کر خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی؟ بلکہ خود سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا برابر مسجد تشریف لے جاتیں اور آپ منع نہ فرماتے۔ فتاوی رضویہ میں ہے :
’’ حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مسجد کریم سے عشق تھا۔ پہلے امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ قبل نکاح امیر المومنین سے شرط کرالی کہ مجھے مسجد سے نہ روکیں۔ امیر المومنین نے ان کی شرط قبول فرمالی۔ یہ کہتیں آپ منع فرمادیں میں نہ جاؤں گی۔ امیر المومنین بہ پابندی شرط منع نہ فرماتے۔‘‘ (حوالہ سابق)
اس تفصیل سے ثابت ہواکہ عہد فاروقی میں عورتوں کا مسجد میں جانا ناجائز وگناہ نہیں تھا ورنہ لازم آئے گا کہ امیر المومنین نے خود بھی ایک ناجائز شرط مانی اور دیگر صحابیات کو ناجائز کام کرتے دیکھ کر منع بھی نہ فرمایا بلکہ یہ بھی لازم آئے گا کہ اس حکم فاروقی کو صحابیات وتابعیات نے پس پشت ڈال دیا۔ معاذاللہ رب العالمین ۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ عہد فاروقی میں خواتین کا جمعہ وجماعات کے لئے جانا جائز تھا اور آپ کی طرف سے صرف نہی ارشادی تھی۔ لہذا ’’فساد بعض کی بنا پر کل کی ممانعت ‘‘ کا قول ہی باطل ہے۔ وہاں فساد کا نہ ’’ظن غالب ‘‘تھا نہ ’’شبہ ناشی عن دلیل ‘‘ تھا ۔ البتہ فتنے کے کچھ اسباب مثلا لباس اور وضع میں کچھ نئی نئی طرز کا ظہور ہو چکا تھا تو ’’سد باب ذرائع‘‘کے تحت آپ نے بطور ارشاد منع فرمایا تھا ۔
استدلال میں لکھا جا رہا ہے کہ
’’ یہ ساری گفتگوخیرالقرون کی خواتین اور مردوں کے بارے میں ہے جب عورتوں میں عفت وپارسائی اور مردوں میں تقوی وپرہیزگاری عام تھی ’’ مگر بعض کے بگاڑ’’ کے سبب سب کو جمعہ وجماعات کی حاضری سے روک دیا گیا۔‘‘
ذرا خط کشیدہ الفاظ پر غور کریں ’’ بعض کے بگاڑ ‘‘ یہ بعض یا تو صحابیات ہیں یا تابعیات۔ بتائیے کیا بعض صحابیات وتابعیات میں فساد تھا ؟ ہزار بار خدا کی پناہ خدا کی پناہ خدا کی پناہ!
ترسم  نرسی  بکعبہ  اے  اعرابی
کیں رہ کہ تو میروی بترکستان است
اور
حق سے بد ہو کے زمانے کا بھلا بنتا ہے
ارے میں خوب سمجھتا ہوں معمہ تیرا
ایک دلچسپ لطیفہ
’’ مجلس شرعی کے فیصلے‘‘میں ہے :
حالات میں تھوڑا سا فرق آتے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں روک دیا اور ’’صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم نے اس سے اتفاق فرمایا‘‘ (ص:۴۷۵)
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ’’عہد فاروقی ‘‘ میں عورتوں کے لئے جمعہ وجماعات کی حاضری کی ممانعت پر اجماع صحابہ منعقد ہو چکا تھا اور یہ ایک متفق علیہ اور اجماعی حکم ہو گیا تھا اور اسی ’’مجلس شرعی کے فیصلے‘‘ میں ہے :
’’ اجماعی احکام نہیں بدلتے۔ فتاوی رضویہ میں ہے: فقہ میں اجماع اقوی الادلہ (سب سے زیادہ مضبوط دلیل )ہے کہ اجماع کے خلاف کا مجتھد کو بھی اختیار نہیں ۔‘‘ (ص:۴۶۴)
اور چند صفحہ بعد اسی میں ہے :
’’عہد تابعین میں فقہائے احناف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم بالخصوص سراج الامہ کاشف الغمہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوڑھی عورتوں کو عشا وفجر میں مسجد کی حاضری کی اجازت دے دی۔ ‘‘ (ص:۴۷۵،۴۷۶)
یا للعجب! جب عہد فاروقی میں یہ مسئلہ متفق علیہ اور اجماعی ہو گیا اور اجماعی حکم کی مخالفت کا اختیار مجتہد کو بھی نہیں رہتا تو پھر امام اعظم نے فجر وعشامیں اس حکم اجماعی کی مخالفت کیوں کی؟ ایسی عظیم ذات پر خرق اجماع کا الزام ؟  لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم
اس دعوی پر کہ ’’جمعہ وجماعات کی حاضری سے عورتوں کی ممانعت پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے ‘‘ چند معروضات ہیں۔
(الف) یہ اتفاق واجماع قولی ہے یا سکوتی؟ بہر تقدیر ثبوت درکار ہے ۔
(ب) اجماع اقوی ادلہ ہے اور اجماع صحابہ اقوی اقوی الادلہ ہے اور اس سے یہاں حرمت ثابت ہوگی تو کیا عہد فاروقی میں ہی عورتوں کو مسجد میں جانا حرام بلکہ سخت حرام ہو گیا تھا؟ بہر صورت شہادت درکار ہے ۔
(ج) اجماع کی مخالفت کفر یا ضلالت یا کم از کم فسق ہے اور صحابیات و تابعیات کا عہد فاروقی کے بعد بھی مسجد جانا ثابت ہے تو ان پر کیا حکم ہوگا ۔
(د) امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشا وفجر میں عورتوں کو مسجد جانے کی اجازت دی ۔ صاحبین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بوڑھی عورتوں کو مطلقا اجازت دی اور سیدنا امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام عورتوں کو اجازت دی۔ یہ اساطین امت اور مجتہدین دین وملت مخالفین اجماع صحابہ ہوئے کہ نہیں ؟ اور پھر ان پر کیا حکم نافذ ہوگا؟
(ھ) کتب احناف میں سے کس کتاب میں یہ نقل ہے کہ عہد فاروقی میں ’’ ممانعت خواتین از مسجد‘‘ پر اجماع صحابہ ہو گیا تھا؟
(و) آج اگر کوئی فقیہ اجماع مذکور کا انکار کرے تو اس پر کیا حکم صادر ہوگا ؟
ان معروضات پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کیا جائے تو نور حق کی درخشانی میں بہت سے حقائق کا مشاہدہ ہو سکتا ہے اور صحابیات وتابعیات کی پاکیزہ بارگاہ میں ’’ فساد بعض‘‘ کا خیال رکھنے کا فساد اور ’’ شبہ ناشی عن دلیل ‘‘ کے پردے سے ان تمام نفوس مبارکہ اور شخصیات قدسیہ کے پاکیزہ کردار پر شک وشبہ کی غلیظ اور ناپاک نگاہ ڈالنے کا وبال سر کی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔
آدمی کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنی غلط سلط بات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے عفت مآب شخصیات کو نشانہ بنائے اور احکام شرعیہ کو حالات زمانہ کے مطابق اس طرح بدلتا جائے کہ خود ہی بدل جائے ۔یہ روش اور عادت سب کو لے ڈوبے گی خدا ہماری حفاظت فرمائے (آمین )
دوسرا زاویہ
اب ہم مذکورہ استدلال اور دلیل پر دوسری جہت سے کلام کرتے ہیں :
(الف) عورتوں پر جمعہ فرض ہی نہیں تو وہ جمعہ میں حاضری کی مکلف ہی نہیں ہیں۔ ان کے لئے جماعت وجمعہ کی حاضری درجۂ اجازت میں تھی۔ لہذا ان کی ممانعت کے لئے ادنی سبب ممانعت ہی کافی ہے۔ ممانعت خواتین سے اذن عام پر اثر نہ پڑنے کی تفریع اسی سبب پر ہے۔ چنانچہ ردالمحتار میں ہے ۔
’’قولہ (للواردین) ای من المکلفین بھا فلا یضر منع نحو النساء لخوف الفتنۃ اھ‘‘ (ج:۳، ص:۲۴)
واردین یعنی جمعہ جن پر فرض ہے، ان کو اذن عام حاصل ہو۔ لہذا خوف فتنہ کے سبب عورتوں کی ممانعت اذن عام کے منافی نہیں (کہ ان پر جمعہ فرض ہی نہیں )
جبکہ عاقل بالغ مردوں پر جمعہ فرض ہے تو ان کی ممانعت کے لئے ایسا سبب لازم ہے جو موجود محقق یا کم از کم مظنون بظن غالب ہو کہ وہ بھی ملحق بالیقین ہے جو یقین سابق کا مزاحم ہو سکتا ہے ۔
(ب) حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مبارک میں اسباب فتنہ صرف موہوم ومشکوک نہ تھے بلکہ خارج میں ان کا مشاہدہ ہورہا تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :
’’لوادرک رسول اللہ ﷺ ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل‘‘ (صحیح مسلم ، ج:۱، ص:۱۸۳)
اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ملاحظہ فرماتے جو باتیں اب عورتوں نے پیدا کی ہیں تو ضرور انہیں مسجد سے منع فرمادیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں منع کردی گئیں ۔
اور عنایہ شرح ہدایہ میں ہے :
’’لو علم النبی ﷺ ما علم عمر مااذن لکن فی الخروج‘‘ (عنایۃ مع الفتح، ج:۱، ص:۳۰۷)
اگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مشاہدہ فرماتے جو چیزیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشاہدہ کی ہیں تو تمہیں کبھی مسجد جانے کی اجازت نہ دیتے۔
احادیث مبارکہ میں کلمہ’’ادرک‘‘ ’’مااحدث‘‘ ’’علم‘‘ ’’ماعلم‘‘ پر غور کریں، حقیقت کا نور جھلکتا ملے گا۔کیا کروڑو ںمسلمانوں میں کرونا وائرس کی بھی یہی کیفیت ہے اور کیا مسلمانوں کا ازدحام اسی طرح کا مشاہدومحسوس سبب ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کروڑوں کو جانے دیجئے ،ہزاروں بستیاں ایسی ہیں کہ وہاں کرونا موہوم سے بھی نیچے درجے میں ہے۔ وہاں اندیشۂ ضرر کا منشا کونسا سبب مشاہد ہے ؟ کہ اندیشۂ فتنہ خواتین سے استدلال صحیح ٹھہرے۔
(ج) یہ کہنا کہ خیر القرون میں دونوں طرح کے فتنے نہ واقع ، نہ مظنون بظن غالب ،  بلکہ مشکوک ومشتبہ تھے، اسے میں جہل ہرگز نہیں کہہ سکتا ،ہاں تجاھل عارفانہ کا نام دے سکتا ہوں ۔
قارئین ذرا درج ذیل ارشادات کو ملاحظہ فرمائیں ۔ عمدۃ القاری میں ہے:
’’کان ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما یقوم یحصب النساء یوم الجمعۃ یخرجھن من المسجد وکان ابراہیم یمنع نساء ہ الجمعۃ والجماعۃ‘‘ (ج:۶، ص:۱۵۷)
صحابی رسول حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما جمعہ کے دن کھڑے ہوکر کنکریاں مار کر عورتوں کو مسجد سے نکالتے اور امام ابراہیم نخعی تابعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مستورات کو جمعہ و جماعات میں جانے سے منع فرماتے :
الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں حضرت عاتکہ صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا ارشاد منقول ہے :
’’انا للہ ! فسدالناس‘‘ (ج:۴، ص:۳۵۷)
ترجمہ : ہم اللہ کے لئے ہیں لوگوں میں فساد آگیا ۔
اور بھی بہت سے شواہد ہیں جو استدلال میں کئے گئے دعوی کی تردید کررہے ہیں ۔ لہذا یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے ۔
(د) اگر بالفرض عورتوں سے فتنہ واقع نہیں تو عورتوں پر فتنہ کیوں نہیں تھا جبکہ منافقین کسی بھی طرح کی شرارت سے نہیں چوکتے تھے اور وہ موجود تھے۔ ’’مجلس شرعی کے فیصلے ‘‘ میں ہے :
’’ عہد صحابہ کا عام معمول تھا کہ تمام صحابہ کرام جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے اور سوائے منافقین کے کوئی جماعت سے غیر حاضر نہ رہتا تھا۔‘‘ (ص: ۴۷۳، ناشر مجلس شرعی مبارکپور)
اسی میں ہے :
’’ عہد تابعین میں فقہائے حنفیہ رحمۃ اللہ علیھم بالخصوص سراج الامت کاشف الغمہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوڑھی عورتوں کو عشا وفجر میں مسجد میں حاضری کی اجازت دے دی کہ اس وقت فساق وفجار کھانے اور سونے میں مشغول رہتے تھے۔‘‘ (حوالہ سابق ص:۴۷۶)
ایک طرف اپنے ہی قلم سے عہد صحابہ کرام میں منافقین اور عہد تابعین کرام میں فساق وفجار کے وجودکا اقرار اور دوسری طرف یہ انکار کہ خیر القرون میں دونوں طرح کے فتنے نہ واقع تھے نہ مظنون بظن غالب اور پھر یہ اظہار کہ عامہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم صالحین سے تھے ، فساق نہ تھے تو صحابہ وتابعین پر فسق وفجور کا ظن غالب نہیں ہو سکتا جبکہ عورتوں پر فتنہ فساق ہی سے ہو سکتا ہے ‘‘ اسے تضاد بیانی اور اختلال جنانی کے کھاتے میں ڈالا جائے یا سبقت لسانی اور خامہ روانی پر محمول کیا جائے ؟
(ھ) عورت اپنی فطرت وطبیعت کے اعتبار سے محل اندیشۂ فتنہ ہے۔ عقل ودین میں مردوں سے آدھی اور رغبت نفسانی میں سو گنی ہے۔ اگر مرد کے ساتھ ایک شیطان تو ہر عورت کے ساتھ دوشیطان، ایک آگے اور ایک پیچھے ہوتے ہیں ۔
حدیث پاک ہے :
’’المرأۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفھا الشیطن‘‘ (جامع ترمذی، ج:۱، ص:۳۲۲)
عورت پردہ کی چیز ہے ۔ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے گھورتا ہے ۔
دوسری حدیث میں ہے :
’’ان المرأۃ تقبل فی صورۃ شیطن وتدبر فی صورۃ شیطن‘‘ (صحیح مسلم، ج:۱، ص:۴۴۹)
عورت شیطان کی صورت میں آگے آتی ہے اور شیطان کی صورت میں پیچھے جاتی ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر عورت اپنی فطرت وبناوٹ کے لحاظ سے محل اندیشۂ فتنہ ہے اور فساق کی طرف سے کسی کا تحفظ نہیں رہا تو سب کو ممانعت ہوئی ۔
کیا تمام انسان خصوصا مسلمان بھی اپنی فطرت کے لحاظ سے محل اندیشۂ کرونا وائرس ہے کہ اگر وہ باہر نکلے گا تو اس کے آگے پیچھے وائرس طواف کرنے لگیں گے؟ عامہ مسلمان کے لئے ایسا نظریہ قائم کرنا کسی وائرس زدہ سے ہی متوقع ہے۔ عقل سلیم کا حامل کبھی ایسی بات نہیں کرسکتا ہے ۔
(و)خیرالقرون میں ہی زنا کے سبب سنگسار کیا گیا ، حد قذف لگائی ، شرابی پر کوڑے برسائے گئے ، خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حالت تلاوت قرآن میں شہید کیا گیا ، آپ کی زوجہ محترمہ کو طمانچہ مارا گیا،  امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر دیا گیا ،  امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مع خاندان اہلبیت شہید کیا گیا ، مسجد نبوی میں گھوڑے بندھوائے گئے ،  مدینہ منورہ کی خواتین کی آبروریزی کی گئی ،  مکہ مکرمہ پر حملہ کیا گیا ۔
ان سب کے باوجود یہ کہنا کہ عہد صحابہ وتابعین میں فتنہ کا وقوع نہیں تھا، سخت دھوپ میں سورج کا انکار اور چودہویں کے چاند کی چمک کے اعتراف سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔
سورج کی روشنی میں اندھا اگر نہ دیکھے
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا!
(ز) عورتوں کی ممانعت ان میں غلبۂ فساد کی بنا پر نہیں بلکہ فساق وفجار میں غلبۂ شہوت کی بنا پرتھی ۔
’’ مجلس شرعی کے فیصلے ‘‘ میں ہے :
’’ امام (اعظم) نے عورتوں کو ایک علت یعنی فساق میں شہوت (پرستی) کی حد سے زیادتی کی وجہ سے اس بنا پر منع فرمایا تھا کہ یہ ناخدا ترس مغرب کے وقت میں باہر نہیں رہے کیونکہ کھانے میں مشغول ہیں اور فجر وعشا کے اوقات میں سوتے رہتے ہیں مگر اب غلبۂ فسق کے باعث ان اوقات میں بھی پھیلے رہتے ہیں بلکہ ایسے ہی اوقات کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ ‘‘ (ص۴۷۶،۴۷۷)
اب یہ کہنا کہ ’’ کیا معاذاللہ خیر القرون کی ان مقدس خواتین اور پاکباز مردوں میں فساد وبگاڑ مظنون بظن غالب تھا؟ہزار بار خدا کی پناہ !کیا ان کے متعلق کوئی مسلمان ایسا سوچ سکتا ہے؟‘‘
تضاد بیانی نہیں تو اور کیا ہے ؟ آپ خود ہی لکھ رہے ہیں کہ ’’امام اعظم نے عورتوں کو ایک علت یعنی فساق میں شہوت پرستی کی حد سے زیادتی کی وجہ سے منع کیا تھا ‘‘ اس کا واضح مطلب کیا یہ نہیں ہے کہ عہد تابعین میں اس قدر فساق شہوت پرست تھے کہ امام اعظم کو عورتوں کو مسجد جانے سے منع کرنا پڑا۔ اب اگر آپ ہی کے انداز میں کوئی کہے :
’’معاذاللہ صدبار معاذاللہ ! ایسے محققین سے اللہ کی پناہ جو خیرالقرون کے لوگوں کو فساق و فجار اور حد سے زیادہ شہوت پرست لکھ رہے ہیں ‘‘ تو کسی کو چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہئے۔
(ح) اس استدلال میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ
’’ جس باب میں اصل منع ہوتا ہے وہاں شبہ کی بنا پر بھی حکم جاری ہوتا ہے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل فتنہ ممنوع ہے تو جس سبب سے فتنہ کا شبہ ہو وہ بھی ممنوع ہوگا ۔یونہی اصل وائرس ایک فتنہ ہے جس کا پھیلانا ممنوع ہے۔ تو جس سبب سے وائرس پھیلنے کا شبہ ہو وہ بھی ممنوع ہے اور وہ سبب بھیڑبھاڑ ہے۔ اس لئے بھیڑ بھاڑ بھی ممنوع ہے ۔
اس پر عرض ہے کہ عورت کا فتنہ ہونا اور بے پردہ باہر نکلنے پر اذیت میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہونا منصوص ہے۔ آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ، ارشادات ائمہ اس پر شاہد عدل ہیں جو کسی بالغ نظر محقق سے مخفی نہیں۔ ہاں ممکن ہے کہ مکتب فقہ کے کسی ادنٰی طالب علم اور بے مایہ کی نظر سے اوجھل ہوں۔ لہذا چند نصوص درج کر دے رہے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِْهِنَّ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ} (سورۃ الاحزاب؍۵۹)
ایک مقام پر ہے :
{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْـهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ}  (سورۃ النور؍۳۱)
ایک مقام پر ہے :
{وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ}  (سورۃ النور؍۳۱)
اور ارشاد حدیث ہے :
’’ان المرأۃ خلقت من ضلع لن تستقیم لک علی طریق فان استمتعت بھا استمتعت بھا وبھا عوج وان ذھبت تقسیمھا کسرتھا وکسرھا طلاق‘‘ (صحیح مسلم ج:۲، ص:۹۰)
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہاباریک کپڑا پہن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے آئیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے منھ پھیر لیا اور فرمایا:
’’یا اسماء ان المرأ ۃ اذا بلغت المحیض لم تصلح ان یری منھا الا ھذا وھذاواشار الی وجھہ وکفیہ‘‘ (ابوداؤد ج:۴، ص:۸۵)
اور ایک حدیث پاک ہے:
’’قال رسول اللہ ﷺ ماترکت بعدی فتنۃ اضر علی الرجال من النساء‘‘ (صحیح بخاری)
ان آیات طیبہ اور احادیث مبارکہ سے خواتین کی فطرت و طبیعت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
کرونا وائرس کا فتنہ ہونا ، بھیڑ بھاڑ کا سبب فتنہ ہونا کس آیت یا حدیث سے ثابت ہوا اور کس کے پاس وحی آئی کہ مسجد میں بھیڑ بھاڑ کرنا سبب فتنۂ وائرس ہے اور پارلمنٹ میں، بازاروں میں، شراب کی دکانوں پر، چائے خانوں پر، بسوں اور ٹرکوں میں بھیڑ بھاڑ سبب فتنہ نہیں ہے۔
جب تک اس تفریق پر دلیل نہ آجائے اور عورتوں کی طرح وائرس کے فتنہ ہونے اور اختلاط کے سبب فتنہ ہونے پر شرعی دلائل نہ پیش کردئے جائیں خواتین کی ممانعت سے استدلال قطعا ناقابل قبول ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اندیشۂ فتنہ کے سبب عورتوں کی مسجد آنے پر ممانعت سے یہ استدلال کرنا کہ اندیشہ ٔ کرونا کے سبب تمام مردوں کو بھی روکا جا سکتا ہے، قطعا غلط اور بے بنیاد ہے اور سائیکل کو فلائٹ پر قیاس کرنے کے مترادف ہے ۔
تیسری دلیل کا تحقیقی جائزہ
کہا جارہا ہے کہ
’’ موذی کو اندیشۂ ایذا کی وجہ سے مسجد آنے کی ممانعت ہے تاہم اس سے اذن عام اور صحت جمعہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا یونہی کورونا وائرس سے اندیشۂ ایذا کی بنا پر لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کو مسجد میں آنے کی ممانعت ہے اور اس سے اذن عام اور صحت جمعہ پر کوئی اثر نہ پڑے گا  ویمنع منہ کل موذ ولو بلسانہ‘‘
اس پر عرض ہے کہ
بیشک موذی کو اندیشۂ ایذا سے مسجد آنے کی ممانعت ہے مگر شرط ہے کہ پہلے اس کا موذی ہونا ثابت ہوجائے۔ اگر کسی کا موذی ہوناثابت نہیں تو اسے مسجد سے روکنا درکنار موذی کہنا ہی صحیح نہیں ہے’’ فواتح الرحموت ‘‘ میں ہے :
’’شرط صحۃ اطلاق المشتق صدق اصلہ المشتق منہ علیہ لامتناع تحقق الکل الذی ھو المشتق بدون الجز ء الذی ھو الاصل وھذا ظاھر علی رای الجمھور‘‘ (ج:۱، ص:۱۵۴)
ترجمہ:کسی پر مشتق کا اطلاق صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ اس کی اصل یعنی مشتق منہ پہلے صادق آئے کیونکہ کل یعنی مشتق کا ثبوت بغیر جز یعنی اصل کے محال ہے اور یہ جمہور کی رائے کے مطابق ظاہر ہے۔
حاصل عبارت یہ ہے کہ کسی پر مشتق کا اطلاق بغیر مبداء صحیح نہیں مثلا زید کو علم نہ ہو تو اسے عالم کہنا صحیح نہیں ، ہاں معتزلہ ضرور یہ کہتے ہیں کہ مصدر کا ثبوت نہ ہو پھر بھی مشتق کا اطلاق درست ہے اسی لئے ان کا کہنا ہے کہ ’’اللہ عالم‘‘ ہے مگر اس کے لئے صفت علم نہیں ہے ۔
لیکن ہم تو بحمدہ تعالیٰ اہلسنت سے ہیں۔ ہمارا موقف وہی ہے جو فواتح الرحموت میں مذکور ہے کہ صدق مشتق کے لیے قیام مبداء ضروری ہے۔ اس وضاحت کے بعد جاننا چاہئے کہ کسی کو موذی کہنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں صفت ایذا کا ثبوت ہو۔بے ثبوت ایذا کسی کو موذی ماننا معتزلہ کا نظریہ ہے۔ اسی لئے نماز جمعہ کے لئے موذی کو مسجد سے ممانعت سے متعلق سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں :
’’ اگر یہ خود اسے حاضری جمعہ سے باز رکھتے ہیں تو دیکھنا چاہئے کہ وہ شخص فی الواقع شریر ومفسد وموذی ہے کہ اس کے آنے سے اندیشۂ فتنہ ہے، جب تو ایسی ممانعت بھی مانع صحت جمعہ نہ ہوگی ‘‘ (فتاوی رضویہ ج :۶،ص:۲۱۱)
اور فرماتے ہیں :
’’ جو شخص موذی ہو کہ نمازیوں کو تکلیف دیتا ہے، برا بھلا کہتا ہے، شریر ہے، اس سے اندیشہ رہتا ہے، ایسے شخص کو مسجد میں آنے سے منع کرنا جائز ہے۔ ‘‘ (حوالہ سابق ص:۳۳)
فقیہ فقیدالمثال کے یہ جملے قابل توجہ ہیں :
(۱) وہ شخص فی الواقع شریر مفسد وموذی ہے۔
(۲) جو شخص موذی ہو کہ نمازیوں کو تکلیف دیتا ہے، برابھلا کہتا ہے، شریر ہے ۔
یہ جملے صاف صاف اعلان کر رہے ہیں کہ کسی کو پہلے اپنے گمان سے موذی مان کر مسجد سے منع نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ فی الواقع صفت ایذا سے متصف ہو تو ممانعت اذن عام کے منافی نہ ہوگی جبکہ مسئلہ دائرہ میں ممانعت، ایذا کے محض شبہ اور وہم وخیال کے سبب ہے۔ پھر اسے ’’منع موذی‘‘ سے لاحق کرنا کیسے درست ہوگا ؟
وائرس کے خوف سے خلوت نشینی کے ساتھ خوف الہی کی تجلیات میں حدیث مبارک اور ارشادات فقہائے کرام کا مشاہدہ ہو تو مثل سورج روشن ہوگا کہ موذی اسی کو کہا جائے گا جس میں صفت ایذا ہو اور مسجد سے اسی کو منع کیا جائے گا جو ’’فی الواقع‘‘ باعث ایذا ہو ۔
لاک ڈاون کی ابتدا سے لے کر اب تک ہزاروں آبادیوں میں ایک بھی وائرس زدہ مریض نہیں پایا گیا تو ۱۴ اور ۲۱؍ دن کے اندر مریض ہو جانے کا شبہ بھی ختم ہے۔ پھر وہاں اختلاط کو سبب وائرس قراردینا تفقہ نہیں تحکم ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص فی الواقع وائرس زدہ ہو اسے مسجد سے ممانعت منافی اذن عام نہیں ۔ لیکن کیا کیجئے گا، جس کے وائرس زدہ ہونے کا شبہ بھی ہوتا ہے حکومت اسے ہاسپٹل بھیج دے رہی ہے یا پھر کورنٹائن کردے رہی ہے تو منشأ شک بھی نہیں رہ پا رہا ہے کہ شبہ ناشی عن دلیل کا سہارا ملے ۔ ادھر ارشاد نبوی اختلاط سے بیماری کے پھیلاؤ کا الگ انکاری ہے ۔
غرضیکہ ’’کل موذی ولوبلسانہ‘‘ سے ممانعت اختلاط درمسجد پر استدلال محض اک خیال ہے جو اہل علم کے لئے باعث رنج وملال ہے۔
بدعقیدوں کی ممانعت سے استدلال کی حیثیت
تیسری حدیث کی تشریح میں کہا گیا کہ
مسجد کے گیٹ پر یہ اعلان بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ یہاں کوئی تبلیغ نہ کرے‘‘مگر کیا اس طرح کا اعلان لگانے کے بعد وہ ممانعت ختم ہوگئی؟ ہرگزنہیں۔ آخر کیوں (الی قولہ) یہاں بدعقیدگی کی تبلیغ کا شبہ ہے جو ناشی عن دلیل ہے اس لئے علما نے مطلقاممانعت فرمادی ۔
چند سطر آگے ہے :
جیسے ایذا کے شبہ ناشی عن دلیل کی بنا پر عام بدمذہبوں کو جمعہ ،جماعت ومسجد سے روک دیا گیا ویسے کورونا وائرس کے شبہ ناشی عن دلیل کی بنا پر حکومت نے چند افراد کے سوا عامہ ناس کو جمعہ وجماعت ومسجد سے روک دیا۔
اس استدلال پر فقہ کا معمولی طالب علم بھی تبسم ریز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے شاید ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے ۔
مارے گھٹنہ پھوٹے سر
کہاں بدعقیدوں کو تبلیغ سے روکنا اور کہاں نماز کے لئے مسجد میں جمع ہونے سے روکنا ۔ یہاں بدعقیدوں کی بات کیوں کی جائے؟ اگر سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں کو بھی تبلیغ سے منع کردیا جائے اور افراد غیر معلوم نہیں بلکہ معلوم ومتعین افراد کو بلکہ تمام مسلمانوں کو پھر بھی اذن عام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا چہ جائیکہ بدعقیدوں کی ممانعت۔ بدعقیدوں کی تبلیغ کی ممانعت سے ممانعت نماز پر استدلال شاید خوف وائرس کا نتیجہ ہے ۔
علاوہ ازیں بدعقیدوں کو مسجد سے ممانعت صرف تبلیغ کی وجہ سے نہیں بلکہ اہلسنت کے لئے ان کا وجود ہی سبب ایذا ہے کہ مسجد میں ان کی آمد یا قطع صف کا سبب ہوگی یا خلط ملط، میل جول، سلام وکلام اور دوستی یا کم ازکم ان سے نفرت کے خاتمے کا سبب ہوگی اور یہ امور باعث ایذا ہیں۔کتاب وسنت اور ارشادات علمائے دین ان سب پر شاہد عدل ہیں۔ حاصل یہ کہ بدعقیدگی خود ایک مرض موذی ہے۔ لہذا ہر بدعقیدہ موذی ہے جس سے مسجد کو بچایا جائے گا۔ جو لوگ تبلیغیوں کی تین، پانچ کرکے قسمیں نکال رہے ہیں ان کو بھی یہ تسلیم ہوگا کہ مسجد نبوی سے منافقین کی ممانعت تبلیغ کے سبب نہیں، ان کے نفاق کے سبب تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بدعقیدہ تبلیغ کرے نہ کرے، بہر حال اسے مسجد سے منع کرنا جائز ہے کہ وہ فی الواقع موذی ہے ۔ اور اگر بدعقیدگی کی تبلیغ کرے تو صرف جائز ہی نہیں اسے مسجد سے روکنا واجب ہے۔ فتاوی رضویہ میں ہے ’’اگر بدمذہب گمراہ مثلا وہابی یا رافضی یا غیر مقلد یا نیچری یا ندوی یا تفضیلی وغیرھا ہے اور مسجد میں آکر نمازیوںکو بہکاتا ہے، اپنے مذہب ناپاک کی طرف بلاتا ہے تو اسے منع کرنا اور مسجد میں نہ آنے دینا ضرور واجب ہے‘‘ (فتاوی رضویہ ج:۶،ص:۳۳)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بدعقیدوں سے ایذا محض ’’شک ناشی عن دلیل ‘‘ کی منزل میں نہیں ہے تو ان کی ممانعت محض شبہ ناشی عن دلیل کی بنا پر نہیں، سبب واقعی نفس الامری اور موجود کی بنا پر ہے۔ ’’کل موذولوبلسانہ‘‘کی وہ تشریح جو علمائے کرام کے ارشادات سے میل نہ کھائے، قطعاً ًقابل قبول نہیں ہے۔ اس لئے وائرس کے ایذا کو ’’کل موذ‘‘ کے تحت لا کر مسلمانوں کو مسجد سے ممانعت کی دلیل نہ بنایا جائے۔
ایک دوسرے زاویہ سے
ایذائے مومن حرام اور گناہ ہے۔ ارشاد حدیث ہے :
’’من اذی مومنا فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللہ‘‘ (المعجم الاوسط ج:۴، ص:۳۷۳)
ترجمہ: جس نے کسی مومن کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے خدا کو ایذا دی ۔
اور کسی مسلمان کی طرف بغیر ثبوت گناہ کی نسبت کرنا ناجائز ہے۔ سیدنا امام غزالی قدس سرہ فرماتے ہیں :
’’لاتجوز نسبۃ مسلم الی کبیرۃ من غیر تحقیق‘‘ (احیاء ج:۳، ص:۱۲۵)
ترجمہ: بغیر تحقیق مسلمان کی نسبت کسی کبیرہ کی طرف کرنا جائز نہیں ۔
لہذا بغیر ثبوت کسی مسلمان کو موذی کہنا ناجائز ہے۔ اب ذرا غور کریں ! جب ایک مسلمان کو بلاثبوت شرعی موذی کہنا درست نہیں تو کروڑوں مسلمانوں کو موذی کہنا کیا ہوگا ؟
اگر کوئی یہ کہے کہ ہم مسلمانوں کو موذی نہیں کہہ رہے بلکہ موذی ہونے کاشبہ کررہے ہیں تو اور بھی بڑا جرم ہوگا کہ یہ بدگمانی ہوگی اور بدگمانی حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{اجْتَنِبُوْا كَثِيْـرًا مِّنَ الظَّنِّۖ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْـمٌ} (سورۃ الحجرات؍ ۱۲ )
ہاں ایک بات اور کہی جا سکتی ہے کہ ہم کسی مسلمان کو موذی نہیں کہتے نہ اس پر شبہ کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے مسجد میں اختلاط اور بھیڑ بھاڑ سے ایذا کا اندیشہ مانتے ہیں۔ تو ایذا کسی مسلمان میں نہیں بلکہ اختلاط میں مان رہے ہیں ۔ مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ اختلاط میں ایذاء نہیں ہوگی ورنہ قیام عرض بالعرض لازم آئے گا جو باطل ہے۔ اس لئے ماننا ہوگا کہ ایذا مسلمان کے ساتھ قائم ہوگی اور مسلمان کو ہی موذی کہنا ہوگا ۔
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ ’’کل موذ‘‘سے مسلمانوں کے لئے وائرس کے سبب ممانعت مسجد ونماز پر استدلال کسی طرح درست نہیں ہے۔
علاوہ ازیں مسجد میں آنے سے ممانعت کی متعدد صورتیں ہیں (۱)قابل قبول عذر شرعی کے سبب کسی خاص طبقہ کی قول سے ممانعت (۲) قابل قبول عذر شرعی کے سبب کسی خاص طبقہ کی فعل سے ممانعت (۳)دروازہ مسجد بند کر دینے سے ممانعت ۔
پہلی اور دوسری صورت میں اذن عام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ کسی خاص طبقے کی عذر شرعی کے سبب ممانعت سے یہ لاز م نہیں آتا کہ کوئی ایک شخص بھی اندر نہ جا سکے جبکہ تیسری صورت میں ایک فرد بھی اندر نہیں جا سکتا ہے۔ اب مثلا گورنمنٹی محکمے کا کوئی مسلم آفیسر مسجد کا معائنہ کرنے کے لئے آیا اور اس نے چاہا کہ میں جمعہ میں شرکت کرلوں تو اسے امام و مؤذن اور اندر کے موجود لوگوں میں سے کوئی منع کی ہمت نہیں کر سکتا ہے لیکن جب دروازہ بند ہے تو وہ اندر جا بھی نہیں سکتا ہے۔ یہ یقینا اذن عام کے خلاف ہے کیونکہ ایک شخص کی ممانعت بھی اذن عام کے منافی ہے۔ ردالمحتار میں ہے :
’’ان لا یمنع احدا‘‘ (ج:۳، ص:۲۴)
یعنی کسی ایک کو بھی ممانعت نہ ہو
فتاوی رضویہ میں ہے :
’’ ایک شخص کی ممانعت بھی اذن عام کی مبطل‘‘ (ج:۶، ص:۲۱۲)
کتب احناف میں ایک بھی واقعہ ایسا نہیں مل سکتا ہے کہ عورتوں اور موذیوں کی ممانعت کے لئے جمعہ کے دن دروازہ مسجد بند کردیا گیا ہواور پھر صحت جمعہ کا حکم بھی صادر کیا گیا ہو۔وجہ وہی ہے کہ کسی خاص طبقے کو منع کرنا، منع خاص ہے اور دروازہ بند کردینا منع عام ہے جو بلاشبہ منافی اذن عام ہے۔ لہذا عورتوں اور موذیوں کی ممانعت سے یہ استدلال کرنا کہ خوف وائرس کے سبب دروازہ مسجد بند کرنا درست ہے اور اس سے اذن عام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، قطعا فاسد ہے ۔
چوتھی دلیل کا تحقیقی جائزہ
کہا جا رہا ہے :
“جدید کورونا وائرس لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بڑی سرعت کے ساتھ یہ دنیا کے ۱۸۵ ملکوں میں پہنچ گیا ، یہ تجربات اور اخبار متواترہ شاہد ہیں کہ بھیڑ بھاڑ میل جول اور خلط ملط اس خطرناک بیماری کے اسباب ہیں۔ الغرض بیشمار واقعات وتجربات اور اطبائے عالم کے یکسا ں نظریات وتحقیقات (الی قولہ)انسانوں کی بھیڑ بھاڑ سے پیدا ہونے والے اندیشۂ ضرر کو متحقق کے درجے میں کردیتا ہے۔اخبارمتواترہ حجت ہیں الخ۔
سبحان اللہ ! بھیڑ بھاڑ سے وائرس کے پھیلنے پر کتنی مضبوط دلیلیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اور حاضری مسجد کا ثبوت بھی اتنی مضبوط دلیلوں سے نہیں ہے کیونکہ خبر متواتر سے صرف وجوب نہیں بلکہ فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ اگر جماعت اور حاضری مسجد کا ثبوت بھی تواتر سے ہوتا تو یہ بھی فرض ہوتی حالانکہ فقہائے کرام اسے واجب فرماتے ہیں :
تلویح میں ہے :
’’والاول (المتواتر)یوجب علم الیقین والثانی یوجب علم طمانینۃ والثالث (خبرالواحد )یوجب غلبۃ الظن وھی کافیۃ لوجوب العمل ملخصااھ‘‘ (التوضیح الی کشف حقائق التنقیح، ج:۲، ص:۷،۸)
اس جملہ معترضہ کے بعد آئیے صرف خبر متواتر نہیں بلکہ اخبار متواترہ کا حال ملاحظہ کریں ۔ خبر متواتر کے لئے چند شرائط ہیں ان میں ایک اہم شرط یہ ہے کہ مخبرعنہ محسوسات سے ہو اور دوسری اہم شرط یہ ہے کہ خبر دینے والوں کو مخبر عنہ کا علم یقینی حاصل ہو، گمان اور شک کی بنا پر خبر نہ دے رہے ہوں۔ فواتح الرحموت میں ہے :
’’للتواتر شروط منھا الاستناد الی الحس بان احسّ المخبرون الاولون بمضمون الخبر ومنھا کونھم عالمین متیقنین لا ظانین وشاکین‘‘ (ج:۲، ص:۱۴۱)
ترجمہ : تواتر کے لئے چند شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ حس پر اس کا دارومدار ہوبایں طور کہ پہلے مخبرین نے مضمون خبر کو حواس سے جانا ہو (مثلا دیکھا ہو) دوسری یہ کہ مخبرین کو خبر کا یقین ہو گمان اور شک نہ ہو ۔
اب اہل علم انصاف کریں ! اگر کروناوائرس کے پھیلاؤ کا سبب اختلاط، خبر متواتر سے ثابت ہے تو کن کن ڈاکٹروں نے اسے دیکھ کر خبر دی ہے اور انہیں کس طرح علم یقینی حاصل ہوا ہے جبکہ بقول میڈیا ڈاکٹر حضرات آج تک نہ اس کی حقیقت سمجھ سکے نہ اس کا علاج پا سکے۔ ایسی خبر اگر پورا ملک دے تو بھی اسے متواتر نہیں کہہ سکتے ہیں ’’توضیح‘‘ میں ہے :
’’ثم المتواتر لابد ان یکون مستندا الی الحس سمعا اوغیرہ حتی لو اتفق اھل اقلیم علی مسئلۃ عقلیۃ لم یحصل لنا الیقین حتی یقوم البرھان‘‘ (ج:۲، ص:۶)
ترجمہ: متواتر کے لئے ضروری ہے کہ اس کا مدار حس یعنی سماعت وغیرہ پر ہو حتی کہ اگر کسی ملک کے سب لوگ کسی عقلی بات پر متفق ہوں تو ہمیں یقین نہ ہوگا جب تک دلیل نہ قائم ہوجائے ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اخبار متواترہ سے اختلاط کو وائرس کے پھیلاؤ کاسبب ماننا دنیائے فقہ کا ایک عجوبہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
اور اگر کوئی شخص بزعم خویش اخبارمتواترہ تجربات متکاثرہ اور دلائل متظافرہ سے اسے ثابت کرنے پر ہی مصرہوتو اس پر عرض ہے کہ
نیتاؤں اور ممبروں کو بذریعہ بس ادھر سے ادھرلے جانا ، ہوٹلوں میں ٹھہرانا ، بعض سیاسی رہنماؤں کا عام دنوں کی طرح بارات لے جانا، شادی میں دعوت کرنا، ایک صوبہ میں برسر اقتدار پارٹی کو ہٹا کر پارلمینٹ میں اپنی اکثریت دکھا کر اقتدار حاصل کرنا، لاک ڈاؤن کے درمیان ہی وزیر اعلی یوپی کا اجودھیادورہ کرنا، بے شمار لوگوں کا وہاں مذہبی رسوم اداکرنا، رام مندر کا سنگ بنیاد وغیرہ ۔
یہ سب بھی لاک ڈاؤن کے درمیان اخبار متواترہ سے ثابت ہیں ۔ آخر یہاں وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ کیوں دم توڑ گیا؟ درمختار کی آب وتاب میں بیشمار مضمرات کا مشاہدہ کرنے والوں کو ان محسوسات ومبصرات کا ادراک تو ہونا ہی چاہئے اور انصاف کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے یہ بھی لکھنا چاہئے کہ برسر اقتدار جماعت کے تمام رہنماؤں کے یکساں نظریات اور سب کا اتفاق واتحاد اور ان کاموں کو دیکھنے کے باوجود سب کا سکوت اور ڈاکٹروں کے متضادبیانات اس بات کو مزید تقویت دے رہے ہیں کہ محض بھیڑ بھاڑ وائرس کے پھیلاؤ کاسبب نہیں ہے۔
تجلی برق
اگر اخبار متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کاسبب اختلاط ہے تو ان خبروں سے یقین حاصل ہوگا نہ کہ محض ’’شبہ ناشی عن دلیل ‘‘ اس لئے اب بھیڑ بھاڑ اور اختلاط ہلاکت کاسبب یقینی ہوگا جس سے بچنا فرض اور کرنا حرام ہوگا جیسے پہاڑ کی اونچائی سے کودنا حرام ہے، تو مسلمانوں کا کہیں بھی جمع ہونا حرام ٹھہرے گا کہ مفضی الی الھلاک  کا اپنا نا حرام ہے’’ فواتح الرحموت‘‘ میں ہے:
’’الاتری ان تحصیل اسباب الواجب واجب وتحصیل اسباب الحرام حرام‘‘ (ج:۱، ص:۷۷)
یہ ہے اخبار متواترہ کا جلوہ جس کی روشنی میں بازار جانا جائز اور مسجد جانا حرام ہے لا حول ولاقوۃ الا باللہ
ایک اورجلوہ
جب فتح قدیر سے تبیین حقائق کے فیوض وبرکات اور عطائے نبویہ سے کنز دقائق کے ابواب واہوتے ہیں تو منزل مقصود تک رسائی آسان ہو جاتی ہے ۔
ہم مانتے ہیں کہ اخبار متواترہ اور تجربات وواقعات سے وائرس کا ضرر صرف اندیشہ نہیں غالب گمان بلکہ یقین کو پہونچا ہوا ہے ، مگر یقین کسے حاصل ہے؟ حکومت کو یا ڈاکٹر کو یا خبر دینے والوں کو یا مسلمانوں کو؟ اگر مسلمانوں کو ضرر کا یقین یا غالب گمان ہے تو بھلا دوڑ کر مسجد کیوں جاتے؟ مارکیٹ کیوں کرتے؟ دیگر مقامات پر بھیڑکیوں لگاتے؟ بلکہ جس طرح پولس کو دیکھ کر بھاگتے ہیں، بھیڑ سے بھی بھاگتے۔ اسی سے ظاہر ہے کہ وائرس سے ضرر کا گمان مسجد جانے والے مسلمانوں کو نہیں بلکہ خبر دینے والوں کو ہے اور فقہ کا مسلمہ ہے کہ ایک کا یقین دوسرے پر حاکم نہیں۔ فتح القدیرمیں ہے:
’’لان یقینہ لا یبطل بیقین غیرہ‘‘ (ج:۱، ص:۴۵۷)
جب یقین کا یہ حال تو گمان اور شک وشبہ سے متعلق کیا خیال
گودی میڈیائی اخبار کو متواتر کہنا اور ٹی وی پر دیکھے گئے مناظر کو مشاہدات وتجربات کے سانچے میں ڈھالنا کسی زبان آور اور ہوشیار قلمکار اور ماہر نامہ نگار کا کام تو کہا جا سکتا ہے، کسی فقیہ اور محقق سے ایسی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی ہے۔ ہاں مکتب فقہ کے کسی طالب علم سے بھی اس طرح کی فاش غلطی مانی جا سکتی ہے ۔
اگر ایسے ہی تجربات کثیرہ اور اخبارمتواترہ سے احکام شرع ثابت ہونے لگیں گے تو دین کا خدا حافظ ۔
ہاں یہاں ایک گوشہ اور ہے کہ جس طرح نوٹیلی فون کی خبریں متواتر ہوجاتی ہیں ممکن ہے یہاں بھی متواتر کا کوئی جدید معنی کسی نے متعین کردیا ہو۔اگر ایسا ہو تو کوئی بات نہیں لامناقشۃ فی الاصطلاح مگر یاد رہے وہ معنی کسی ’’بے مایہ‘‘ کے نزدیک تو معتبر ہو سکتا ہے، مسلمانوں کے نزدیک ہرگزنہیں۔ ان کے لئے اسلاف کرام کا متعین کردہ راستہ ہی کافی ہے :
ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ
(۱) مسئلہ دائرہ میں دلائل اربعہ بوجوہ مختلفہ شریعت مطہرہ کے اصول وقوانین کی روشنی میں غیر معتبر ہیں ۔
(۲) مسلمان حکومتی قانون پر عمل پیرا ہوکر گھروں پر نماز ادا کریں اور جتنی تعداد میں مسجد جانے کی اجازت ہے وہی جائے۔
(۳) جو حضرات نماز جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد جائیں وہ خود مسجد کا دروازہ بند نہ کریں۔ اگر کوئی دوسرا بند کردے تو حرج نہیں ۔
(۴) جن کو مسجد میں جانے کی سعادت مل رہی ہے وہ دوسروں پر اپنا تفوق خیال میں نہ لائیں ۔
(۵) اکابر امت کے فتاوی اور اعاظم ملت کے ارشادات کے مطابق دروازۂ مسجد بند کرلینے سے جمعہ نہیں ہوگا۔ اگر کہیں بغیر بند کئے کام نہ چلے تواب نماز ظہر تنہا تنہا پڑھ لیں ۔
(۶) ڈاکٹر حضرات وائرس سے تحفظ کی جو تدابیر بتارہے ہیں ان پر کاربند رہیں واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہٗ: محمد اختر حسین قادری غفرلہٗ
خادم افتاودرس دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی بستی یوپی
۲۶؍ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ
۲۰؍ مئی ۲۰۲۰ء


Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

Don`t copy text!