مخلصانہ تبصرہ

وہابی کا ذبیحہ حرام و مردار ہے۔

وہابی کا ذبح کیا ہوا  (گوشت وغیرہ) کھانا کیسا ہے؟
اس سوال کا جواب مولانا سید مدنی میاں صاحب نے کیا دیا؟
ان کی آواز میں سنیے!

سید مدنی میاں صاحب کے مذکورہ بیان کے تناظر میں حضرت علامہ مفتی شہزاد عالم رضوی صاحب قبلہ (جامعۃ الرضا، بریلی شریف) کی سنجیدہ و علمی تحریر ذیل میں ملاحظہ فرمائیں جو صحیح مسئلہ کو بالکل واضح کردیتی ہے۔

سید مدنی میاں صاحب قبلہ کے جواب پر
مخلصانہ تبصرہ

﷽۔

چند دنوں سے سوشل میڈیا پر حضرت سید مدنی میاں صاحب قبلہ کی ایک ویڈیو کلپ بڑی تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں آپ نے وہابی کے ذبیحے کے متعلق کیے جانے والے سوال کا جواب ایسے عجیب و غریب پیرائے میں مرحمت فرمایا ہے جو حالات زمانہ کی رعایت، اصول افتاء کی طبیعت اور کتب فقہ کے مزاج سے الگ تھلگ معلوم ہوتا ہے۔ اس جواب سے سادہ لوح، کم علم اور اصول کی گہرائی و گیرائی سے ناآشنا عوام خلجان کا شکار ہے اور ان کی فقہی مشکل کم ہونےکے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔

سوال دراصل اتنا تھا کہ وہابی کا ذبیحہ درست اور جائز ہے یا نہیں؟ تو عام کتب فقہ اور فتاویٰ کے مطابق باعتبار عمومیت جماعتی حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب یہ بنتاتھا کہ ”حرام ہے“مگر نہ جانے  کیوں حضرت نے جواب  کو پیچیدہ کردیا اور منطقی طرز اختیار کرتے ہوئے اشارۃ علم کلام کی بحث کا رخ کرلیا۔

یہاں پر ہم قارئین کرام کو اصل مسئلہ سے روشناس کراتے چلیں کہ وہابی کی دو قسمیں ہیں۔
(۱) بظاہر مقلد جو دیوبندی کے نام سے مشہور ہیں۔
(۲) غیر مقلد جو سلفی اور اہل حدیث کے نام سے مشہور ہیں۔
اول الذکر پر جماعتی حکم کفر کا ہے چونکہ پیشوایانِ دیابنہ کی ان کے عقائد کفریہ کے سبب تکفیر کلامی کی گئی ہے تاہم مؤخرالذکر کا جماعتی حکم عندالمتکلمین گمراہی اور بحکم اکثر فقہا کفر لزومی کا ہے جیسا کہ فقہی تصریحات سے واشگاف ہے۔ سردست یہ بھی ذہن نشیں کرلیں کہ ذبیحہ کے جواز و عدم جواز اور حلت و حرمت کا مسئلہ نکاح کے جواز و عدم جواز کی طرح فقہی ہے اور جائز و ناجائز کے متعلق دریافت کرنے کی صورت میں مفتی پر ضروری ہے کہ فقہی جزئیات کو اپنے جواب کا زیور بنائے اور عوام کے ذہن و دماغ کے مطابق واضح اور تشفی بخش جواب عنایت کرے جس سے کوئی ذہنی خلجان پیدا نہ ہو۔ اسی طرح ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ عام و مجمل سوال کے جواب میں عام و مجمل طرز اختیار کرے اور خاص و مفصل سوال کے جواب میں خاص و مفصل طرز۔ اس کو سمجھنے کیلئے فتاویٰ رضویہ شریف سے دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

امام اہل سنت مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان ایک عام سوال کے جواب میں عام حکم بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”طائفہ تالفہ غیر مقلدین گمراہ بد دین اور بحکم فقہ کفار و مرتدین ہیں جن پر بوجوہ کثیرہ لزوم کفر بین مبین۔“
(فتاویٰ رضویہ، ج۶، ص ۳۳، رضااکیڈمی)
دوسری جگہ ایک تفصیلی سوال کے جواب میں خاص اور تفصیلی طرز اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ افادۂ علمی اور صحیح نتیجہ اخذی کے لئے سوال و جواب من و عن نقل ہے:

”مسئلہ: کیا شیعوں کے سب فرقے اور غیر مقلدین سب کے سب کافر ہیں؟
الجواب: ان میں ضروریات دین سے کسی شے کا جو منکر ہے، یقیناً کافرہے اور جو قطعیات کے منکر ہیں، ان پر بحکم فقہاء لزوم کفر ہے اور اگر کوئی غیر مقلد ایسا پایا جائے کہ صرف انہی فرعی اعمال میں مخالف ہو اور تمام عقائد قطعیہ میں اہل سنت کا موافق یا وہ شیعی کہ صرف تفضیلی ہے، تو ایسوں پر حکم تکفیر ناممکن ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم “
(فتاویٰ رضویہ، ج۶، ص ۳۲، رضا اکیڈمی)

ان دونوں مثالوں سے آشکار ہے کہ جب (کسی جماعت کے متعلق) عام حکم دریافت کیا جائے تو جواب بھی سوال کے موافق ہو۔ تفصیل میں جانا اور عوام کی عقل سے ماورا گفتگو کرنا بلاشبہ مقتضائے حال کے خلاف اور بہت سارے شکوک و شبہات کا باعث ہوگا۔ قارئین کرام کو بتاتے چلیں کہ حضرت کے جواب میں دو باتوں پر خاص زور دیا گیا ہے۔
(۱) اول اس پر کہ ”پوری دنیا میں صرف پانچ افراد کو کافر کہا گیا ہے اور باقی کو گمراہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کسی حکمت کے پیش نظر، اور وہ کافر نہیں۔ لہٰذا اُن کا ذبیحہ حلال ہے، چونکہ حرام ہونے کے لئے ان کے کفر کا قطعی علم درکار ہے۔“
جواب کے اس مقدمہ پر حضرت والا سے عرض ہے کہ بلاشبہ ان پانچ افراد کا کفر شہرت یافتہ اور جگ ظاہر ہے مگر ’’من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر‘‘ کی قید بھی کسی حکمت کے پیش نظر ہے؟ جس کو نظر انداز کرکے ان پانچ کے علاوہ مابقیہ کے ذبیحہ کو بلا کسی خلل و کراہت کے حلال قرا دینا اور عام سوال پر بالکل غور نہ فرمانا اصول فقہ، تقاضائے اہلسنت اور مسلمانان اہلسنت کی خیرکواہی کے خلاف ہے۔
(۲) دوسرا اس پر کہ ان پانچ کا کفر تو جگ ظاہر ہے مگر ”پانچ ہزار، پانچ لاکھ ہوں گے وہ جو اِن کے پیچھے چل رہے ہیں مگر وہ جانتے ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کفر کیا ہے؟ جب جانتے نہیں تو اس کا کچھ نہیں، وہ گمراہ رہیں گے۔“
اس پر عرض ہے کہ پانچ ہزار یا پانچ لاکھ (جس سے آپ کی مراد کثرت کو بیان کرنا ہے نہ کہ نفس عدد) کے بارے میں طواغیت اربعہ سے لاعلمی کا ادعاء محض امکانی ہے، واقعی نہیں۔ یوں ہی آپ کا قول (اس کا کچھ نہیں، وہ گمراہ رہیں گے) دو متضاد حکموں کو بتاتا ہے۔ کہ ایک طرف تو اس (یعنی وہابی) کو ذبیحہ کے بارے میں کلین چٹ دے رہا ہے، دوسری طرف اس سے احتراز کو لازم کرنے والا وصفِ خاص (گمرہی) بھی بیان کر رہا ہے، تو کیا گمراہ پر بحکم اکثر فقہاء لزوم کفر نہیں؟ اور کیا اس کے ذبیحہ سے اجتناب کیلئے اس کا گمراہ ہونا ہی کافی نہیں؟ اگر ہاں تو اس گوشہ سے اعراض کرنے کی حکمت بیان فرمادیں اور اگر نہیں تو گمراہ سے دور رہنے  کا حکم دینے والی حدیثوں کا کیا جواب ہوگا؟ یہاں ادعائے محض و امکانی اور واقعی نہ ہونے پر امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی تصریح ملاحظہ ہو۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
”ان دیار میں وہابی ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اسماعیل دہلوی کے پیرو اور اس کی کتاب تقویۃ الایمان کے معتقد ہیں۔ یہ لوگ مثل شیعہ خارجی معتزلہ وغیرھم اہل سنت کے مخالف مذہب ہیں۔ ان میں سے جس شخص کی بدعت حد کفر تک نہ ہو، یہ اس وقت تک تھا، اب کبرائے وہابیہ نے کھلے کھلے ضروریات دین کا انکار کیا اور تمام وہابیہ اس میں ان کے موافق یا کم از کم ان کے حامی یا انہیں مسلمان جاننے والے ہیں اور یہ سب صریح کفر ہیں۔ تو اب وہابیہ میں کوئی ایسا نہ رہا جس کی بدعت کفر سے گری ہوئی ہو، خواہ غیر مقلد ہو یا بظاہر مقلد۔“
(فتاویٰ رضویہ ، ج۳، ص ۱۶۹ تا ۱۷۰)
کیا امام اہل سنت کے قول (کوئی ایسا نہ رہا) سے آپ کے پانچ ہزار یا پانچ لاکھ والے دعویٰ کی تردید نہیں ہو رہی ہے؟ یہ تو سو سال سے بھی پہلے کے حالاتِ وہابیہ ہیں جنکی امام اہلسنت نے تصریح فرمائی ہے۔ اب جبکہ صدرالافاضل، محدث اعظم ہند، حجۃ الاسلام، مفتیٔ اعظم، شیربیشۂ اہلسنت اور علامہ ارشد القادری جیسے قابل استناد علماء و خطباء و مناظرین نے بحث و مباحثہ کر کے کفریات وہابیہ سے پردہ ہٹا دیا اور مسئلے کو منقح کر دیا تو ایسے وقت میں بھی اکثریت کو (جس میں عوام و خواص شامل ہیں)  کفریات سے نابلد بتانا، یہ تصلب کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں کو اپنی ہی گفتگو سے اختلاف کا جواز فراہم کرنا نہیں؟

قارئین کرام کے افادہ کیلئے تین ایسے مقدمات بھی تحریر کیے دیتے ہیں جن سے مسئلہ فہمی میں آسانی ہوگی اور وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) تمام وہابیوں پر فقہائے کرام کے ارشادات کے مطابق کفر لازم آتا ہے۔
(۲) تکفیر کے مسئلے میں غایت احتیاط مذہب متکلمین اختیار کرنا ہے۔
(۳) اجتناب و احتراز کےموقع پر غایت احتیاط فقہائے کرام کا مذہب اختیار کرنا ہے۔
ان تینوں مقدمات کو امام اہلسنت کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
”تو دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسا نہ ہوگا جس پر فقہائے کرام کے ارشادات سے کفر لازم نہ ہو اور نکاح کا جواز و عدم جواز نہیں مگر ایک مسئلہ فقہی تو یہاں حکم فقہاء یہی ہوگا کہ ان سے مناکحت اصلاً جائز نہیں۔ خواہ مرد وہابی ہو یا عورت وہابیہ اور مرد سنی اور ان میں جو کسی ضروری دین کا منکر نہیں، نہ کسی ضروری دین کے منکر کو مسلمان کہتا ہے، اسے کافر نہیں کہتے مگر یہ صرف برائے احتیاط ہے، دربارۂ تکفیر حتی الامکان احتیاط اس میں ہے کہ سکوت کیجئے۔ مگر وہی احتیاط جو وہاں مانع تکفیر ہوئی تھی، یہاں مانع نکاح ہوگی کہ جب جمہور فقہائے کرام کے حکم سے ان پر کفر لازم تو ان سے مناکحت زنا ہے۔ تو یہاں احتیاط اس میں ہے کہ اس سے دور رہیں اور مسلمانوں کو باز رکھیں۔“
(فتاویٔ رضویہ جلد ۹ صفحہ ۲۳۹مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی)
اس عبارت میں چند باتیں خاص طور پر لائق اعتناء ہیں:
(۱) “دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسا نہ ہوگا۔۔۔ “ اس جملہ سے آپ کے دعوے (یقین جانیے اور اُمید رکھیے کہ جتنے ذبیحہ کرنے والے ہیں وہ درجۂ کفر تک نہیں پہنچے ہیں) کی تردید ہوگئی۔ ایک تو یہ کہ موجودہ دور میں وہابیوں کی اکثریت کفریات طواغیت سے واقف کار ہے جیسا کہ ہمارے بزرگوں کی توضیحات و خطابات اور ایمانی نگہداشت شاہد عدل ہے۔ دوسری بات یہ کہ جن کو عندالمتکلمین کفر سے بچا رہے ہیں ان پر عندالفقہاء لزومِ کفر حتماً پایا جارہا ہے اور جس طرح کافر کلامی سے اجتناب چاہیے اسی طرح کافر فقہی سے بھی اجتناب چاہیے۔
(۲) “دربارہء تکفیر حتی الامکاں۔۔۔” اور ” اس سے دور رہیں اور مسلمانوں کو باز رکھیں۔۔۔” 
ان دو جملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تکفیر کے مسئلے میں احتیاطاً مذہب متکلمین اختیار کرتے ہوئے تکفیر سے بچا جائے لیکن حکم حرمت لگانے اور پرہیز کرنے کے بارے میں کفر قطعی کلامی ہی درکار نہیں بلکہ فقہی بھی کافی ہوگا کہ شرع شریف میں جلب منفعت پر دفع مفسدہ کو اولیت حاصل ہے۔

یہ چند سطور احباب کے پیہم اصرار کے بعد فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں تحریر کردیں۔ اس امید پر کہ حضرت والا اپنے جواب پر غور فرمائیں گے تاکہ عوام اہلسنت کا اضطراب ختم ہو۔ اس فقیر پرتقصیر نے دوران تحریر دامن ادب تھامے رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ پھر بھی اگر بتقاضائے بشریت کہیں پر دامن ادب چھوٹ گیا ہو تو حضرت والا معذور رکھیں گے کہ ہمیں الحمدللہ آپ کی عظیم نسبت، علمی وجاہت اور بلند پایہ شخصیت کا بسر و چشم اعتراف و احترام ہے اور دعا ہے کہ رب قدیر آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضری عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین

(مفتی) محمد شہزاد عالم رضوی،
خادم التدریس و الافتاء، جامعتہ الرضا،
بریلی شریف

سید مدنی میاں کی آڈیو میں کیا ہے؟ تحریر میں پڑھیے:
سید مدنی میاں صاحب سے سوال ہوا:

وہابی کا ذبح کیا ہوا کھانا درست ہے، جائز ہے؟
سید مدنی میاں نے جواب دیا:
’’پتہ نہیں آپ لوگ کیا جواب سوچتے ہوں گے؟ اب خطرناک کوئی جواب آنے والا ہے۔ خطرناک کوئی جواب آنے والا ہے۔ سوال ہی ایسا ہے نا! میں بتاؤں مختصر۔ اس مختصر کو نہ آپ سمجھ سکیں تو اپنے علاقے کے علماء سے سمجھیں۔ میں چند منٹوں میں آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔ سمجھے۔ ذبیحہ جو حرام ہے، وہ کسی کافر کا ذبیحہ۔ کسی کافر کا ذبیحہ۔ وہ حرام ہے۔ گمراہ بہت سے ہیں۔ گمراہوں کی لسٹ بناؤ بڑی لمبی چوڑی ہوگی۔ مگر ہر گمراہ کافر نہیں ہے۔ ہر گمراہ کافر نہیں ہے جب تک کہ اس کی گمراہی کفر تک نہ پہنچ جائے۔ کسی شخص کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ اِس نے کفر کیا ہے اور اس کفر کی آپ کو اطلاع شرعی ہو، بالکل شک نہ ہو۔ تو ایسے کے ہاتھ کا ذبیحہ آپ نہیں استعمال کر سکتے، مگر جس کے بارے میں آپ کو خبر ہی نہ ہو، جب خبر ہی نہیں ہو تو اس کو آپ کافر نہیں کہہ سکتے۔ اور جب کافر نہیں کہہ سکتے تو مسلمان کہنا پڑے گا۔ جو کافر نہیں ہے وہ مسلمان ہے۔ اب جب مسلمان ہے تو اس کا ذبیحہ بھی ٹھیک ہے۔ تو یہ سب چیزیں بہت باریکی سے سمجھنے کی ہوتی ہیں۔ کسی پر ایسے الزام لگا دے کر کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا۔ آپ نے وہابی کا نام لے لیا۔ وہابی ایک گمراہ جماعت ہے، اس کی گمراہی میں کوئی شک نہیں۔ مگر اُن وہابیوں کے اندر کون درجہ کفر تک پہنچا؟ ہمارے جیلیل القدر علماء، جب انھوں نے پہچان کرائی، تو صرف پانچ ہیں، درجہ کفر تک پہنچنے والے پانچ ہیں اور ان کا کفر ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ ان کی کتاب مشہور ہے۔ وہ پانچ، اُن کی پیروی کرنے والے جو اُن کے کفر کو نہیں جانتے، وہ بھی کافر نہیں۔ کافر ہونے کیلئے ان کا کفر جاننا ضروری ہے۔ یہ پانچ تو ہیں وہ جنھوں نے کفر کیا۔ اور میں سمجھتا ہوں پانچ ہزار، پانچ لاکھ ہوں گے وہ جو ان کے پیچھے چل رہے ہیں مگر وہ جانتے ہی نہیں کہ انھوں نے کیا کفر کیا۔ جب جانتے نہیں تو اُس کا کچھ نہیں۔ وہ گمراہ رہیں گے۔ ان سے بچنا ضروری ہے۔ ان سے، گمراہ سے دور رہنا اچھا ہے، ضروری ہے، لازمی ہے، وہ سب بات صحیح ہے۔ مگر شرعی مسئلہ اگر آپ پوچھتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کیسا ہے؟ تو اس کیلئے تو کفر کا قطعی علم ہونا چاہیے اور جو کسی کو ہوتا نہیں ہے۔ سمجھے آپ نہیں ہوتا۔ بہت سارے مولوی حضرات بھی ہیں، ان کو بھی نہیں ہوتا۔ وہ نہیں جانتے، کفر کو نہیں جانتے۔ اب سوچیے اتنی بڑی دنیا میں صرف پانچ کو کافر کہنا اور باقی کو گمراہ کرکے چھوڑ دینا، اس میں بھی تو کوئی حکمت ہے۔ اس میں تو کوئی مصلحت ہے۔ تو آپ نے جو سوال کیا ہے، ذبیحے والا معاملہ، آپ یقین جانیے اور امید رکھیے کہ جتنے ذبیحہ کرنے والے ہیں وہ درجہ کفرتک نہیں پہنچے ہیں۔ لہٰذا اُس میں کرید کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ جاہل جھپٹ آدمی کتابوں کو نہ سمجھ پائے، نہ وہ سمجھ سکیں کیا کفر ہے کیا ایمان ہے؟ ایسے جاہل جھپٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں ان کا ذبیحہ؟ اِن میں تو اُن کو ذبیحہ مت کردیجیے کہ انھیں کا ذبیحہ ہوجائے۔ سمجھے مگر ان کاذبیحہ جو ہے، شرعی نقطہ نظر سے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اب کوئی نہ کرے، کہا کہ صاحب ہم تو نہیں، تو یہ آپ کی اپنی مرضی بات۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم زبردستی آپ کو کھلائیں گے۔ ایسا بھی نہیں۔ تو عام حالات کو دیکھیے اگر، ظاہری حالات کو اگر دیکھیے، تو یہ لوگ صرف گمراہ ہیں، عوام۔ جن پر کفر کے فتوے ہیں وہ اور ہیں، وہ اور ہیں۔ اُن کا علم بھی یہ لوگ نہیں جانتے، اُن کا صحیح نام بھی یہ نہیں جانتے۔ وہ اور ہیں، وہ اپنی جگہ پر ہیں۔ یہ صرف گمراہ ہیں، بھٹکے ہوئے ہیں۔ ان کو محبت اور خلوص کے ساتھ سمجھائیے، اپنے راستے پر لائیے، یہ ہمارا فریضہ بنتا ہے۔‘‘

اس موضوع پر خلیفۂ حضورتاج الشریعہ و خلیفۂ حضور محدث کبیر حضرت علامہ مفتی شمشاد احمد مصباحی صاحب قبلہ (جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی) کی شاندار تحریر بھی ضرور پڑھیں! کِلک کریں:

نیچے کِلک کرکے ایک شاندار مضمون پڑھیے جس میں بتایا گیا ہے کہ شیخ الاسلام حضرت علامہ سید مدنی میاں صاحب  کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق عام دیوبندی وہابی بھی کافر ہیں اور ان کا ذبیحہ ناجائز و حرام مثل مردار ہے۔

نیچے کِلک کرکے سنیے کہ توقیر رضا نے صاف اعلان کردیا کہ:
’’شیعہ، سنی، وہابی، اہلحدیث، یہ تمام میرے نزدیک مسلمان ہیں!‘‘
معاذاللہ

Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

Hum Aap se Guzarish Karte Hain Ke Aap Hame Koi Paigam Ya Message Dijiye ya Kum se Kum Apna WhatsApp Number Dijiye Taa ke Hum Aap Ko Direct Msg Bhej Saken. Sab se Pahle Aap Hamara Number Save kijiye:-

(+91) 96070 23653

Ab Aap Apna WhatsApp No. Aur Naam Wagaira Dijiye.

    Don`t copy text!