Shandaar Mazmoon

از: سیّد علی انجم رضوی
رضا اکیڈمی، دھولیہ (مہاراشٹر)

سور کے اجزا والی ویکسین کو جائز کہنے میں عجلت کیوں؟

کورونا کا قہر :

پوری دنیا کورونا وائرس ( کووِڈ ۔ 19 ) کی وجہ سے انتہائی پریشانی کے عالم میں زندگی گزار رہی ہے ۔ اس مہلک بیماری نے اب تک لاکھوں لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے ۔ یہ بیماری قہرِ خداوندی کی طرح پوری دنیا پر نازل ہوئی ہے ۔ یہ واحد وبائی مرض ہے ، جس کا اثر بیک وقت پوری دنیا پر نظر آ رہا ہے ۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر اس مرض سے بچنے کے لیے مختلف ملکوں میں ٹیکے (Vaccines) بھی بنائے جا رہے ہیں ۔ مگر جب سے یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ ان ٹیکوں میں خنزیر کے اجزاءشامل ہیں ، تب سے اسلام پسند لوگ تشویش کا شکار ہیں ۔ سب سے پہلے مسلم اکثریتی ممالک انڈونیشیا اور ملیشیا سے ان ٹیکوں کے خلاف آواز بلند ہوئی تو دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے مفتیوں نے اور یہاں بھارت میں بھی کچھ مفتیوں نے خنزیر کے اجزاء ہونے کی صورت میں بھی ان ٹیکوں کو جائز قرار دیا ہے ۔ اس بے یقینی کے عالم میں مسلم عوام تذبذب (Confusion) کا شکار ہیں ۔

علاج کرنا اسلام کے منافی نہیں :

سیدنا ابو خزامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں ” میں نے کہا ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ جو ہم دوا کے ذریعہ علاج کرتے ہیں ، دم کرواتے ہیں ، بچاؤ استعمال کرتے ہیں ، ان کے بارے میں آپ ﷺ کا کیا خیال ہے ؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی کسی تقدیر میں سے کسی چیز کو ردّ کرتے ہیں ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ” یہ چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں سے ہیں ۔ “ ( مُسندِ احمد ، حدیث نمبر 190 )

علمائے اہلِ سُنّت کا موقف :

آل انڈیا سُنّی جمعیة علماء، رضا اکیڈمی اور دیگر سُنّی تنظیموں کے زیر اہتمام حضور معینِ ملّت معین میاں صاحب اور رضا اکیڈمی کے بانی و سیکریٹری جنرل اسیرِ مفتی اعظم الحاج محمد سعید نوری صاحب نے فقیہِ عصر ، نواسہ صدرالشریعہ مفتی اعظم ممبئی حضرت مفتی محمود اختر صاحب کی صدارت میں علماءو مفتیانِ اہل سُنّت کی ایک اہم میٹنگ جامعہ قادریہ اشرفیہ ، سُنّی بلال مسجد ، ممبئی میں 23 دسمبر 2020 ء کو منعقد کروائی ۔ اس میٹنگ میں کورونا کے ٹیکے (Vaccine) کے مسئلہ پر تفصیلی گفتگو ہوئی ۔مفتی محمود اختر صاحب نے کورونا ویکسِن پر شرعی حکم صادر فرماتے ہوئے کہا کہ ” خزیر ( سور ) حرام و نجس العین ( حقیقتاً ناپاک ) ہے ۔ قرآنِ پاک میں اسے نجس فرمایا گیا ہے ۔ اس کا ہر جز ( حصہ ) خواہ گوشت ہو یا چربی ، ہڈّی ہو یا خال بلکہ اس کا بال بھی نجس و ناپاک ہے ۔ یہا ں تک کہ خنزیر کا بال بھی اگر کوئیں میں پڑ جائے تو پورا کنواں ناپاک ہو جائے گا ۔ لہٰذا کسی بھی دوا یا ویکسِن یا کسی بھی چیز میں خنزیر کا کوئی بھی جز استعمال کیا جائے ، وہ بالکل ناپاک و حرام ہے ۔ اس کا استعمال ہرگز جائز نہیں اور یہ یقین رکھا جائے کہ حرام چیز میں اللہ تعالیٰ نے شِفاءنہیں رکھی ہے ۔ “

واضح رہے کہ اس میٹنگ میں کورونا کی کسی بھی ویکسِن کو ابھی تک مطلق ناجائز و حرام نہیں کہا گیا ہے کیونکہ ابھی تک کسی بھی ویکسِن کے اجزائے ترکیبی کی تفصیلات مصدقہ طور پر منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں ۔مفتیء موصوف کے حکم پرعلمائے اہلِ سُنّت کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ” اگر کسی ویکسِن میں واقعی خنزیر کے اجزاءشامل ہوں تو پھر ایسی ویکسِن کا استعمال ضرور حرام ہوگا۔ کسی بیماری کے خوف سے شریعت کی حرام کردہ اشیاءکو حلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔ “

یہ موقف شرطیہ ہے۔ یعنی اگر حرام اجزاءشامل ہوں گے تو ویکسِن کا استعمال حرام ورنہ مباح ۔ کیونکہ ایسی بھی خبریں ہیں کہ کچھ ویکسِن میں خنزیر کے اجزاءشامل نہیں۔اس میٹنگ میں حکومتِ ہند سے مطالبہ کیا گیا کہ جو ویکسِن بھارت میں استعمال کی جانے والی ہے اس کے اجزائے ترکیبی کی جانکاری علمائے کرام کو دی جائے تاکہ وہ شرعی حکم بیان کر سکیں اور حلال اجزاء ہونے کی صورت میں عوام کو اسے لینے کی فہمائش کر سکیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حلال ویکسِن موجود ہونے کا امکان ہے تو پھرتمام ہی ویکسِنز کے استعمال کو کیونکر مباح قرار دیا جا سکتاہے ! اس طرح عجلت میں دیئے گئے فتوؤں سے کم علم عوام بلاوجہ تذبذب کا شکار ہو جائے گی۔

بہ حا لتِ مجبوری حرام اشیاءکے استعمال کی رخصت :

یہ بات بھی درست ہے کہ مجبوری کی حالت میں بقدرِ ضرورت حرام اشیاءکے استعمال کی اجازت دی گئی ہے ۔

اللہ رب العزت قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔

اِنّمَا حَرّمَ عَلَیْکُمُ المَیْتَتَہ وَالدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِاللّٰہ بِہ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرُُ‘ رَّحِیْمُ‘ ة ( سورة النحل ، آیت ۔ 115 )

” تم پر تو یہی حرام کیا ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح کے وقت غیر خدا کا نام پُکارا گیا ( یعنی اس کو بُتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ) پھر جو لاچار ہو ( اور ان حرام چیزوں میں سے کچھ کھانے پر مجبور ہو ) نہ خواہش کرتا نہ حد سے بڑھتا ( یعنی قدرِ ضرورت پر صبر کرکے ) تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ “

( ترجمہ۔ ” کنزالایمان “ ۔ امام احمد رضا ، مع قوسین میں تفسیر ” خزائن العرفان “ ۔ علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی ، شاگرد امام احمد رضا )

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ہونا چاہیے کہ یہ رخصت اسی وقت ہے جب اس کے علاوہ کوئی اور چارہء کار نہ ہو اور کوئی بھی متبادل موجود نہ ہو۔ لہٰذا جب حلال اجزائے ترکیبی والی ویکسِن کے تشکیل دیئے جانے کی خبریں آ رہی ہیں تو حرام اجزائے ترکیبی والی ویکسِن کے استعمال کی اجازت دینے کی کیا عجلت ہے ۔ حالیہ صورتِ حال پر مذکورہ بالا آیتِ قرآنی کو پیش کرنا بھی بے محل ہے ۔ آیتِ مبارکہ تو کسی ” متبادل “ کے موجود نہ ہونے کی صورت میں ہے ۔

اسے اس مثال سے سمجھیے کہ تیمم بھی اسی صورت میں جائز ہے جب اس بات کا یقین ہو جائے کہ پانی موجود نہیں ہے۔جب پانی کے آس پاس موجود ہونے کا قوی امکان ہو تو تیمم میں عجلت درست نہیں ۔

مجبوری کے عالم میں حرام اشیاء کھانے اور دَوا کے طور پر کھانے میں فرق :

اس مسئلہ پر صاحبِ بہارِ شریعت ، شاگردِ اعلیٰ حضرت علامہ امجد علی رضوی علیہ الرحمہ یوں روشنی ڈالتے ہیں ۔

” کھانے ، پینے پر دَوا اور علاج کو قیاس نہ کیا جائے ۔ یعنی حالتِ اضطرار ( بے اختیاری ) میں مُردار اور شراب کو کھانے ، پینے کا حکم ہے ، مگر دوا کے طور پر شراب جائز نہیں ۔ کیونکہ مُردار کا گوشت اور شراب یقینی طور پر بھوک اور پیاس کا دفعیہ ہیں اور َدوا کے طور پر شراب پینے میں یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ مرض کا ازالہ ہی ہو جائے گا ۔

( بحوالہ ۔ ردالمحتار ، ماخوذ بہارِ شریعت ، حصہ سولہ ، صفحہ 14)

فی الحال ” حلال متبادل “ ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔لہٰذاجلدباز مفتیانِ کرام کو چاہیے کہ حرام ویکسِن کے جائز ہونے کا فتویٰ ابھی نہ دیجیے ۔ پہلے تصویر تو صاف ہوجانے دیجیے ۔ عالمی سطح پر بننے والی معروف کمپنیوں کی تمام ویکسِنز (Vaccins) کو اپنے اجزائے ترکیبی کی تفصیلات کے ساتھ منظرِ عام پر تو آنے دیجیے ۔ ابھی سے اباحت کا دروازہ کھولنا شرعی حدود کو ہلکا کرنے کے مترادف ہے ۔

نجس اور حرام دَوا کی ممانعت :

یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ نے نجس یا حرام دوا سے منع فرمایا ۔ ( سُننِ ابو داؤد ، حدیث نمبر ۔ 3870 )

ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ ” اللہ نے بیماری اور دوا ( دونوں ) اتاری ہیں اور ہر بیماری کی ایک دوا پیدا کی ہے ۔ لہٰذا تم دوا کرو لیکن حرام سے دَوا نہ کرو ۔ “ ( سُننِ ابو داؤد ، حدیث نمبر ۔ 3874 )

جہاں تک حرام اشیاء سے دوا بنانے کی بات ہے تو دونوں جہان کے سلطان رحمتِ عالمیان ﷺ کا یہ فرمانِ عالی شان بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے ۔

طارق ابن سُوید الجعفی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے شراب ( بنانے ) سے متعلق سُوال کیا، آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ۔ یا اس کے بنانے کو ناپسند فرمایا ۔ انھوں ( حضرت طارق ابن سُوید ) نے عرض کیا ” دوا کے لیے بناتا ہوں ۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” یہ دوا نہیں ہے ، بلکہ خود بیماری ہے ۔ “ ( صحیح مسلم شریف ، حدیث نمبر۔5141)

یہی حدیثِ پاک سُننِ ابنِ ماجہ میں اس طرح ہے ۔

طارق ابن سُوید الجعفی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول ﷺ ہمارے ملک میں انگور ہیں ، کیا ہم انھیں نچوڑ کر پی لیا کریں ۔ “ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” نہیں ۔ “ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ ہم اس سے مریض کا علاج کرتے ہیں ۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” یہ دوا نہیں بلکہ خود بیماری ہے ۔ “ ( سُننِ ابنِ ماجہ ، حدیث نمبر ۔ 3500 ) یہی حدیث مسندِ احمد ( حدیث نمبر ۔ 7577 اور 7631 ) میں بھی موجود ہے۔

اس لیے ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حتی المقدور اس بات کی کوشش کرے کہ امراض سے شِفاء پانے کے لیے اسے حلال دوائیں میسر آجائیں ۔ جب تمام راستے مسدود ہو جائیں ، کوئی متبادل نظر نہ آئے تو پھر ” رخصت “ کی جانب رُخ کیا جا سکتا ہے ۔ کورونا ویکسِن کے سلسلہ میں فی الحال ایسی صورتِ حال ابھی درپیش نہیں ہے ۔ لہٰذا اس معاملہ میں انتظار ہی کرنا بہتر ہے ۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ شریعتِ اسلامیہ اور بھارت کے قوانین کی روشنی میں ہر صارف (Consumer) کو اس بات کو جاننے کا حق حاصل ہے کہ جو دَوا یا کھانے کی اشیاء وہ خرید رہا ہے، اس میں کون کون سے اجزاءشامل ہیں۔ اسی لیے ہر دَوا پر اس کے اجزائے ترکیبی تحریر کرنا اور معیاری کھانے پینے کے سامان پر ایگ مارک (AGMARK) لگانا لازی ہے۔ لہٰذا علمائے اہلِ سُنّت اور رضا اکیڈمی کو یہ جاننے کا دستوری حق حاصل ہے کہ کورونا ویکسِن میں کون کون سے اجزائے ترکیبی شامل ہیں۔ فی الحال علمائے اہلِ سُنّت کا موقف بھی یہی ہے۔نہ تو انھوں نے ابھی تک وجود میں آنے والی کسی ویکسِن کوحرام قرار دیا ہے اور نہ ہی لوگوں کو ان کے استعمال سے روکا ہے ۔ ابھی تو انھوں نے حکومت سے مطالبہ محض کیا ہے کہ بننے والی ویکسِن کے اجزائے ترکیبی سے انھیں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ شرعی نکتہ نگاہ سے اس پر کوئی حتمی فیصلہ لے سکیں ۔ جب تمام ویکسِن کے اجزائے ترکیبی منظرِ عام پر آجائیں گے ، تب علمائے اہلِ سُنّت شریعتِ مطاہرہ کی روشنی میں اس پر اپنا موقف واضح کردیں گے ۔

ایک مسلمان کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ کو دنیا و ما فیہا سے مقدم رکھتا ہے ۔

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں

سیّد علی انجم رضوی
رضا اکیڈمی، دھولیہ


کورونا ویکسین کے بارے میں رضا اکیڈمی ممبئی اور سنی جمیعۃ العلماء کا موقف جاننے کیلئے بٹن دبائیے۔


Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

Don`t copy text!