امین القادری نے جواب کیوں نہیں دیا؟

امین القادری نے رضا اکیڈمی کے شکیل احمدسبحانی کے سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیا؟

آج سے 6 سال قبل جب مالیگاؤں میں  سنی دعوت اسلامی کے  امین القادری کی جاہلانہ اور گمراہانہ تقریروں سے پورے شہر کے سنی پریشان ہوگئے تھے تو شہر کی تمام ذمہ دار سنی تنظیموں نے مل کر 4 روزہ    پروگرام کا انعقاد کیا جس میں دیگر علماء کے ساتھ ساتھ خلیفہ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی شمشاد احمد رضوی (گھوسی) مدظلہ العالی کو بھی دعوت دی اور شہر کے مختلف علاقوں میں کھلے عام اس جاہل مبلغ کا رد کروایا۔
اس موقع پر ایک پروگرام  9 محرم 1439 ھ مطابق 30 ستمبر 2017ء بروز سنیچر  بعد نماز مغرب گولی باڑہ، کسمبا روڈ، مالیگاؤں میں سنی دعوت اسلامی کے مرکز کے  بالکل قریب ہواجس  میں رضا اکیڈمی مالیگاؤں کے شکیل احمد سبحانی صاحب نے امین القادری کے بارے میں اہم انکشافات کیے اور ان سے چند سوالات بھی کیے جس کا جواب انھوں نے آج تک نہیں دیا۔
شکیل سبحانی صاحب کی آڈیو آپ نیچے سن سکتے ہیں جس میں  مفتی شمشاد احمد رضوی  صاحب قبلہ کی تقریر کا وہ اہم حصہ بھی شامل ہے جس میں آپ نے اس جاہل مبلغ کا رد فرمایا  ہے اور نسب بدلنے کے تعلق سے شریعت کی وعید بھی سنائی ہے۔
دراصل امین القادری   نے کسی بزرگ کے بارے میں ایک مختصر کتابچہ لکھ کر شائع کروایا تھا، جس  پر ایک وہابی پروفیسر نے اخبار میں مضمون لکھ کر اعتراض کردیا تھا۔ اُن اعتراضات کا جواب امین القادری صاحب نہیں دے پارہے تھے اور وہ وہابی لگاتار مضمون لکھتا جارہا تھا جس کی وجہ سے سنیوں کی بڑی بدنامی ہو رہی تھی۔ ایسے نازک حالات میں شکیل احمد سبحانی صاحب نے  برجستہ قلم اٹھایا اور ایسا جواب لکھا کہ وہابیوں کو دن میں تارے نظر آگئے اور وہ پروفیسرتب سےآج تک خاموش ہوگیا۔ یہ سب امین القادری کی نادانی کی وجہ سے ہوا  تھاورنہ اس سے پہلے کبھی کسی وہابی دیوبندی کو ایسی جرات نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح امین القادری کی جاہلانہ اور گمراہانہ تقریروں سے بھی شہر کی سنیت کو بہت نقصان پہنچ رہا تھا  اور وہ عالم نہ ہونے کے باوجود  مخالفین اہل سنت کو مناظرہ اور مباہلہ کا چیلنج دینے لگا تھا جس کی وجہ سے اہل سنت کا وقار داؤ پر لگ گیا تھا۔ان حالات میں شہر کی تمام ذمہ دار سنی تنظیمیں امین القادری سے سخت ناراض ہوگئیں اور سب نے مل کر نامور علمائے اہلسنت کو شہر میں  مدعو کیا اور جگہ جگہ امین القادری کا رد کروایا۔
اس وقت منظر یہ تھا کہ شہر کے تمام سنی ایک طرف اور  امین القادری اور اس کےحواری و مبلغین ایک طرف تھے۔ اس پروگرام میں  شہر کی تمام ذمہ دار  سنی تنظیموں نے اسٹیج پر علی اعلان  ہزاروں کے مجمع میں اس کی سیادت کا انکار کیا اور کروایا اور یہی بات اس کے سید نہ ہونے کے لیے  کافی ہے کیونکہ عادتاً یہ ممکن نہیں کہ آدمی جس شہر میں پیدا ہوا ہو،جہاں اس کا خاندان برسوں سے آباد ہو، وہیں کے ہزاروں لوگ بالخصوص تمام ذمہ دار دینی تنظیمیں بیک زبان اس کے نسب یا برادری کا جھوٹے طور پر انکار کرد یں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ امین القادری نے 23 سال پہلے دنیا والوں کو خبر دی کہ میں سید ہوں!اس سے پہلے پوری دنیا میں کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا یہاں تک کہ اس کے باپ کو بھی علم نہیں تھا۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امین القادری  کو  کس نے بتایا  کہ تم سید ہو؟ اور جب اس کا باپ زندہ تھا تو بتانے والے نے اس  کے والد کو کیوں نہیں بتایا؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ بتانے والے نے اس کے باپ کو سید ہونے سے مستثنیٰ رکھا ہو؟
رہی بات کاغذ پر چھپے ہوئے نسب نامے کی تو اس کا کیا اعتبار؟  آج کے ترقی یافتہ دور میں کوئی چیز چھاپنا یا  چھپوانا یا کسی فوٹو وغیرہ کو ایڈٹ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

رضا اکیڈمی کے شکیل احمد سبحانی کا مختصر تاریخی بیان سنیے جبکہ اسی کے اخیر میں مفتی شمشاد احمد صاحب قبلہ کی تقریر بھی شامل ہے:

(نوٹ : امین القادری اور اس کے چہیتے دوست پکے وہابی کے فوٹو اس مضمون کے نیچےاخیر میں دیے گئے ہیں)

شکیل احمدسبحانی کے سوالات!
امین القادری کے نام!

شکیل احمد سبحانی نے للکارتے ہوئے برسر منبر یہ کہا کہ:
” میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ چند باتیں ہمارے شہر کے شہرت یافتہ مبلغ جناب امین القادری صاحب سے پوچھنا چاہوں گا اور اس سے پہلے میں یہ بھی کہہ دوں کہ میرے سوالات جناب امین القادری صاحب سے ہیں، اس لیے ان سوالات یا اعتراضات کے جوابات امین القادری صاحب عنایت فرمائیں گے۔
اللہ بہتر جانتا ہے، ہمارے دل میں تو یہ ہے کہ جو اہل سنت کے مخالفین ہیں، جو وہابی اور وہابی فکر رکھنے والے لوگ ہیں، ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی تردید کریں، ضرورت اسی بات کی ہے مگر جب اپنوں کے ذریعے دُکھ دیا جا رہا ہے، تو اُن کا حال کیا ہے جو لفظوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، یہ بتانا بھی ضروری ہے۔
میں مبلغ صاحب سے پوچھنا چاہوں گا کہ اس شہر کی سنیت کے لیے آپ نے جو کچھ بھی کیا وہ تو آپ بھی بیان کرتے ہو، آپ کے ماننے والے بھی بیان کرتے ہیں لیکن شہر کی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کسی وہابی کی ماں نے اُسے اتنا دودھ نہیں پلایا کہ کوئی وہابی، کوئی دیوبندی ایک نہیں، دو نہیں، 7 – 7 قسطوں کا مضمون کسی سنی کے خلاف لکھ کر اہل سنت کے لوگوں کو سرمشار کرے۔
جب ڈاکٹر اشفاق انجم  (آپ کے کتابچہ کے خلاف) وہ قسطیں اخبار میں لکھ رہے تھے، اُس وقت امین القادری صاحب کا علم کہاں گیا تھا؟ انہوں نے اس کا کوئی جواب کیوں نہیں دیا؟ میں چاہتا ہوں کہ امین صاحب اس کا جواب دیں۔ آج بھی ڈاکٹر اشفاق انجم کے سوالات ان پر قرض ہیں۔
ارے ہم سنیوں کا حال تو یہ تھا کہ جب کوئی اہلسنت کے خلاف بکواس کرتا تھا تو ہم اگر مقامی طور پر اس قابل نہیں ہوتے تھے کہ اس کا جواب دے سکیں، تو ہم ملک کے دوسرے حصوں سے علمائے اہل سنت کو مدعو کرتے تھے اور اس کا جواب دیا کرتے تھے لیکن 7 – 7 قسطوں کا مضمون آپ کے ایک کتابچے کے اوپر لکھا گیا اور آپ کو توفیق نہیں ہوئی کہ آپ اُس کا جواب لکھ دیں؟
آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو بہت برا لگتا ہے جب کوئی کہتا ہے کہ شیعوں کی روایات مت بیان کرو۔ محترم حضرات آپ سب کو اور علمائے اہل سنت کو گواہ بنا کر میں ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں جو نہ سنا سنایا ہے نہ اِدھر اُدھر سے پڑھا پڑھایا ہے بلکہ میں نے ڈائریکٹ سوال کیا تھا ان سے! میں نے پوچھا تھا، انہوں نے چاندنی چوک پر دو تین سال قبل تقریر کی تھی جس میں یہ کہا تھا کہ “وہ علی جس کے لیے جنت سے پانی آئے، وہ علی جس کو جبرئیل وضو کرائیں، وہ علی جس کے لیے میکائیل تولیہ لے کر کھڑے رہیں” میں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اُسی رات اُن سے یہ پوچھا تھا کہ یہ جو آپ نے حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت بیان کی ہے، وہ حدیث کی کس کتاب میں ہے؟ حوالہ پیش کیجئے۔ اُنہوں نے دوسرے دن مجھے مولانا عبدالتواب صاحب کی ایک کتاب کا حوالہ پیش کیا “علی مرتضی”  میں نے تین دنوں کے بعد اس کتاب کو ڈھونڈ کر اُس کتاب کو پڑھنے کے بعد اُنہیں دوبارہ ایس ایم ایس کیا کہ جناب! آپ کا حوالہ تو اُس کتاب کے اندر موجود نہیں ہے؟ اِس کا جواب اج تک نہیں دیا گیا۔
ایک سال پہلے مولانا نیاز احمد رضوی جو برطانیہ کے ایک عالم دین ہیں، محسن اہلسنت مولانا عبدالحئی نسیم القادری صاحب یہاں موجود ہیں، مفتی واجد علی صاحب یہاں موجود ہیں، ان کی موجودگی میں میں نے کہا تھا ان سے، اور آج میں خلیفۂ حضور تاج الشریعہ مفتی شمشاد احمد رضوی مصباحی صاحب سے بھی یہ درخواست کروں گا کہ شرعی طور پر وہ اس بات کا اعلان کریں کہ ایک ایسا مبلغ جو عربی زبان نہیں جانتا، ایک ایسا مبلغ جس نے کسی دارالعلوم میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ہے، ایک ایسا مبلغ جسے فارسی زبان پر عبور نہیں ہے، کیا شریعت کی روشنی میں اُسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اہلسنت و جماعت کے مخالف علماء کو مناظرے اور مباہلہ کی دعوت دے سکے؟ یہ میں گزارش کروں گا مفتی صاحب قبلہ سے۔
تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ ان علماء کے سامنے میں نے یہ پوری تفصیل بیان کی کہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ “وہ علی جس کے لیے جنت سے پانی آئے، وہ علی جس کو جبرئیل وضو کرائیں، وہ علی جس کے لیے میکائیل تولیہ لے کر کھڑے رہیں۔” علی کی شان تو وہ شان۔ جب جذبات میں بیان کیے جاتے ہیں، تم لوگوں کو بہت اچھا لگتا ہے مگر آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں، جو بات حدیث کی کتابوں میں موجود نہیں، جو بات اللہ اور رسول نے ارشاد نہیں فرمائی، وہ اُن کی جانب منسوب کرنا کس قدر شدید جرم ہے! لفاظیوں کے ذریعے اس کا جواب نہیں ہوگا، گالیاں دے کر اس کا جواب نہیں دیا جائے گا، یہ علمائے کرام گواہ ہیں۔ میں نے کہا کہ میں نے محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی اعظمی صاحب قبلہ سے دریافت کیا کہ حضور! ایک مبلغ نے ایسا ایسا کہا ہے، کیا حدیث کی کسی کتاب میں یہ روایت موجود ہے؟ تو حضور محدث کبیر نے فرمایا کہ “یہ روایت حدیث کی کتابوں میں تو کہیں موجود نہیں ہے بلکہ یہ اُن مبلغ صاحب کا مشاہدہ ہوگا۔” کتنا خطرناک طنز ہے! سوچیے۔
میرا یہی کہنا ہے کہ اہلسنت کے جلسوں میں علمائے اہلسنت کی کتابوں سے اور قران و حدیث کی روشنی میں بیانات کیے جائیں۔ میں نے جتنی باتیں یہاں پر کہی ہیں، وقت نہیں ہے، کہنے کو بہت کچھ ہے۔ دیکھیے ایک مقرر ہو، ایک عالم ہو، ایک مبلغ ہو، اگر کسی عنوان پر وہ بول رہا ہے تو اُس کی اخلاقی ذمہ داری ہے اور مسلمان ہے تو مذہبی ذمہ داری ہے کہ جس عنوان پر بول رہا ہے اُس کے ساتھ انصاف کرے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے۔ مذہب کے اندر تو بہت سخت معاملہ ہے۔ آج شیعت چور دروازے سے نہیں بلکہ کھلے دروازے سے سنیوں کے ایمان کو لوٹنے کا کام کر رہی ہے۔ شیعوں کا طریقہ یہ ہے کہ سنیوں کو گمراہ کرنے کے لیے وہ ایسی روایات بیان کرتے ہیں کہ جس کے ذریعے اہل بیت کی جو محبت سنی مسلمانوں کے دلوں میں ہے اس کا فائدہ اٹھا لیا جائے اور یہی کام ہم لوگ دیکھتے ہیں کہ شیعوں کو چھوڑ دو، خود ہمارے جلسوں میں یہی ہورہا ہے۔ “حضرتِ علی کعبہ شریف کے اندر پیدا ہوئے” مبلغ صاحب ہر جگہ بہت شان سے بیان کرتے ہیں، پوچھا گیا کہ: حوالہ کیا ہے؟ دلیل کیا ہے؟ تو خود ہی فرماتے ہیں کہ “یہ مجھ سے حوالہ پوچھتے ہیں، تو حوالہ میں فلاں عالم کا دوں گا۔” ارے تم امام احمد رضا کا حوالہ کیوں نہیں دیتے؟ تمہاری ذمہ داری ہے کہ وہ حوالہ پیش کرتے کرتے کہ کسی ایک عالم نے لکھا ہے (اُسی کے ساتھ) آپ یہ بھی بتاؤ کہ 50 – 50 علماء نے (بلکہ) سینکڑوں علماء نے اور مورخین نے اس بات کو اپنی کتابوں کے اندر لکھا ہے کہ حضرت علی کعبہ شریف کے اندر پیدا نہیں ہوئے۔ اس بات کو بتانا مقرر کی یا مصنف کی ذمہ داری ہے لیکن وہ یہ تمام باتیں نہیں بتاتے بلکہ یکطرفہ معاملات ان کے چل رہے ہیں۔
ابھی دیکھیے یہ میرے ہاتھوں میں ایک بہت تفصیلی استفتاء ہے۔ اس کا جواب آنے والا ہے۔ ان شاء اللہ تعالی وہ جواب آئے گا۔ علمائے کرام کا یہ کہنا ہے کہ “گمراہ ہونا، گمراہ گر ہونا، یہ تو چھوٹی بات ہے، ان کے متعلق یہاں تک فتوی آسکتا ہے کہ کیا انہوں نے بات کہتے کہتے کفر کا ارتکاب تو نہیں کیا؟ یہ صورتحال انتہائی بھیانک ہے! مولانا شاکر رضوی صاحب جو سنی دعوت اسلامی کے امیر ہیں، ہم ان سے درخواست کریں گے کہ اس معاملے کو آپ ہلکا نہ سمجھیں، دین و ایمان کا معاملہ ہے، پورے اہل سنت و جماعت کا معاملہ ہے۔ مجھے امین القادری سے ذاتی طور پر کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں، میں محسوس کر رہا ہوں کہ سنیت کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم لوگ یہاں پر جمع ہیں اور ضرورت ہے اس لیے ان کا نام لے کر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ اگر ان سے کوئی ذاتی بغض ہوتا تو میں ڈاکٹر اشفاق انجم کے خلاف (جو ایک وہابی پروفیسرہے) جس نے (امین القادری کے ایک کتابچہ کے خلاف) سات/7 قسطوں کا مضمون لکھا تھا، الحمدللہ! اللہ تبارک و تعالی کے کرم سے میں نے 10 قسطوں کا مضمون لکھ کر ڈاکٹر اشفاق انجم اور سارے دیوبندی وہابی ( جودرپردہ اس کے ساتھ تھے) سب کو خاموش کر  دیا (اور آج تک خاموش ہیں) یہ علمائے اہل سنت کی جوتیوں کا صدقہ مجھے ملا ہے۔
تو میں وہی تھا کہ جب امین القادری صاحب مصیبت میں تھے تو جواب دینے والا میں تھا الحمدللہ اور آج سوال کرنے والا بھی میں ہوں۔ انہوں نے مچھلی بازار کے جلسے کے اندر ایک بات کہی، ہزاروں لوگ موجود تھے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اُس تقریر کے اندر انہوں نے ایک بات کہی، خود ہی کہتے کہتے انہوں نے کہہ دیا کہ “آج تم لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے بڑی سخت بات کہہ دی مگر تم بھی تو بولتے ہو! تم بھی تو کرسیاں توڑ توڑ کر بولتے ہو!” میں نے یہ سننے کے بعد لوگوں سے دریافت کیا کہ کون سے عالم نے کرسی توڑ توڑ کے اُس دن سے پہلے امین القادری صاحب کے خلاف کوئی تقریر کی، جس کا وہ جواب دے رہے تھے؟ تو مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔
تو یہاں ضروری ہے کہ جو انسان جس لیول کا ہو، تم مبلغ ہو، تم عالم نہیں ہو! تم مفتی نہیں ہو! تم مناظرے کا چیلنج نہیں دے سکتے! تم مباہلے کا چیلنج نہیں دے سکتے! اسلئے تم (بدمذہبوں کو مناظرہ اور مباہلہ کا چیلنج) نہ دو، اس لیے کہ یہ تمہارے گھر کی بات نہیں ہے، پورے دین اسلام کی بات ہے۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ پاک مجھے اور ہم تمام لوگوں کو اہلسنت و جماعت کی خوب خوب خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بس اتنی بات کہہ کر میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں۔ السلام علیکم  


کِلک رضا  کا ساتھ دیجیے!
ہمارا   نمبر ہر واٹس گروپ میں ایڈ کروائیے:

(+91) 705 86 786 86

امین القادری کا چہیتادوست پکا وہابی!
جو ہر جگہ امین القادری کے ساتھ  ہوتا ہے!

ثبوت دیکھنے کیلئے کِلک کیجیے:

سنی دعوت اسلامی کے تعلق سے جید علمائے اہلسنت کا حکم جاننے کیلئے کلک کیجیے:


Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.


Agar Aap sdi Ke Dhoke Se Logo’n Ko Bachana Chahate Hain To Apna Number Hame Zarur Den Aur Hamara Number Apne Phone Me Save Karen.

اگر آپ   sdi کے دھوکے سے لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں تو اپنا نمبر ہمیں ضرور دیں اور ہمارا نمبر اپنے فون میں سیو      Save کریں:-

(+91) 96070 23653

اب آپ اپنا واٹس ایپ نمبر دیجیے اور کوئی پیغام دینا ہو تو وہ بھی لکھیے۔


    Don`t copy text!