Juma Ki Farziyat Aur Maqsadiyat

جمعہ کی فرضیت اور مقصدیت

۷۸۶ / ۹۲
از: فاضل بغداد مولانا   انیس عالم سیوانی، لکھنؤ
۔
 اختلاف کن کے درمیان؟
ہم سنیوں کے یہاں اور کسی بات پر اتفاق ہو یا نہ ہو مگر اس بات پر تو عام طور پر سبھی متفق ہیں کہ مسئلہ چاہے متفق علیہ ہو یا مختلف فیہ، ہمیں اختلاف کرنا ہے۔
گذشتہ بیس پچیس سالوں میں جو اختلافات رونما ہوئے اس میں ایک بات بالخصوص قابل ذکر رہی کہ یہ اختلافات ان لوگوں کے درمیان رہے جو لوگ اپنے کو بریلوی، رضوی وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں، سب اعلیٰ حضرت اور مفتی اعظم کی بات کرتے ہیں، اگر کوئی دوسرا ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ یہ بریلی کا مخالف ہے، ہمارے نزدیک ان کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں مگر افسوس یہ ہے کہ یہ تمام حضرات فتاویٰ رضویہ اور اعلیٰ حضرت کی بات کرتے ہیں پھر بھی نقطۂ نظر جدا جدا۔ اب تو ایک دو نہیں دسیوں ایسے مسائل ہیں جن میں شدید اختلاف آرا منظر عام پر آچکے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ کوئی کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ مدرسے کے نو آموز مولوی اپنے پیران کرام کو اور تلامذہ اپنے اساتذہ کو بتارہے ہیں کہ صحیح مسئلہ کیا ہے؟
کرونا وائرس (CoronaVirus) نے جہاں پوری دنیا کی حکومتوں اور عوام کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے وہیں ہم مولویوں کو دوہری پریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ ایک تو وہ پریشانی جس میں سبھی مبتلا ہیں، دوسری یہ پریشانی کے ہماری مسجدوں میں کئی ہفتوں سے عمومی جماعت اور نماز جمعہ کا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے بلکہ بند ہوچکا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نماز پنجگانہ ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض فرمائی لیکن بچوں اور حیض ونفاس والی عورتوں پر نماز نہیں۔ اسی طرح جمعہ کی نماز کا حکم اللہ نے دیا، باقی نمازوں کا حکم پہلے آیا، جمعہ کا حکم مدینہ منورہ میں ہوا جب حضور مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے۔ جمعہ کی نماز ظہر کے بدلے میں ہے، جس پر جمعہ فرض ہے اس پر ظہر نہیں اور جس پر ظہر ہے اس پر جمعہ فرض نہیں مثلاً دیہات والوں پر جمعہ فرض نہیں اور نہ ہی عیدین کی نماز اہل دیہات پر واجب، ملک کی آبادی کا اکثریتی حصہ خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم دیہی باشندہ ہے، غرضیکہ جو اہل شہر ہیں ان کے لیے جمعہ ہے، جس طرح حائضہ، متنفسہ عورت یا بچوں پر نماز و روزہ کا حکم نہیں بلکہ حیض ونفاس والی اگر پڑھے گی تو گنہگار ہوگی، چھوٹے بچوں کو مسجد میں آنے سے روکا جائے گا، مسافر شرعی اگر جان بوجھ کر ظہر، عصر عشا کی فرضوں کو پوری پڑھے گا تو گنہگار ہوگا اسی طرح اگر شرائط جمعہ نہ پائی جائیں اور کوئی شخص جمعہ پڑھے گا تو اس کی جمعہ کی نماز نہ ہوگی الگ سے ظہر جو اس پر فرض تھی اس کے ترک کرنے کے سبب گنہگار ہوگا۔
فقہائے کرام نے جمعہ کے لیے سات شرطیں بیان فرمائی ہیں جن پر چودہ سو سال سے امت کا عمل ہے، ان شرطوں کے بغیر جمعہ نہیں۔ ان میں سے بنیادی شرط شہر یا فنائے شہر ہے، دوسری شرط سلطان اسلام یا اس کے قائم مقام کی طرف سے ماذون کا ہونا، تیسری شرط ظہر کا وقت ہونا، چوتھی شرط خطبہ، پانچویں شرط قبل نماز کم از کم تین مسلمان مردوں عاقلوں کے سامنے خطبہ ہونا، چھٹی شرط جماعت سے ہونا، جس میں امام کے علاوہ تین افراد ہوں، ساتویں شرط اذن عام یعنی سب کو آنے کی اجازت ہو (مفہوم فتاویٰ رضویہ ج ۸؍ جدید)
دیگر کتابوں میں ان سات شرائط کو چھ میں احاطہ کیا گیا ہے۔
ان ساتوں شرطوں کے بغیر جمعہ نہیں ہوگا، شہر یا فنائے شہر نہ ہو تو جمعہ نہیں، بادشاہ اسلام یا اس کے ماذون یا عوام اہل سنت کے بغیر کوئی خود ہی جمعہ کی امامت کردے تو جمعہ نہیں، خطبہ نہ ہو تو جمعہ نہیں، ظہر کا وقت نہ ملے تو جمعہ نہیں، تین سے کم مقتدی ہوں تو جمعہ نہیں اسی طرح سب کو آنے کی اجازت نہ ہو تو بھی جمعہ نہیں۔ اذن عام کا مطلب ہے کہ امام ومؤذن یا جو حاضرین جمعہ ہوں ان کی طرف سے کسی ایسے مسلمان کے لیے روک ٹوک نہ ہو جس کا جمعہ صحیح ہو، رہا عورتوں کا مسئلہ تو یہ مسئلہ دور فاروقی ہی سے حل ہوچکا ہے کہ عورتوں کے مسجدوں میں حاضری سے فتنے کا خوف ہے لہذا اسی زمانے سے عورتوں کی حاضری مستثنی ہوگئی، ہمارے لیے حضور کی سنت اور حضور کے صحابہ بالخصوص خلفائے راشدین کی سنت بلا نکیر دلیل وحجت ہے، جیسا کہ فرمایا گیا علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین، دوسرا استثنا موذی کا ہے۔ جس سے ایذا کا اندیشہ ہو اس کو روکا جائے گا اور یہ مانع اذن عام نہیں یہ دونوں مسئلے متفق علیہ ہیں لیکن یہ کہنا کہ مسجد کا دروازہ بند کرنا اذن عام کے منافی نہیں حیرت انگیز ہے، چار پانچ مخصوص لوگوں کے ساتھ دروازہ بند کرکے جمعہ کے نام پر نماز پڑھنا اذن عام تو دور یہ تو اذن خاص بھی نہیں، ایک تو چار یا پانچ کی قید اس میں بھی فلاں فلاں اوپر سے دروازہ لاک، اتنی پابندی تو جوہری کے شو روم میں نہیں ہوتی جتنی آپ نے جمعہ کے لیے لگادی، جمعہ کہتے ہیں اس لیے کہ اس میں اجتماعیت اور کثرت جماعات ہوتی ہے، سب کو اجازت ہوتی ہے، جس جس کا جمعہ صحیح ہے وہ سب آسکیں، مقیمین جمعہ منع نہ کریں، دروازہ بند نہ ہو پھر لوگ آئیں نہ آئیں امام کے سوا تین افراد ہیں تو جمعہ ہوجائے گا، یہ کہنا کتنا مضحکہ خیز ہے کہ ہم نے تالا لگاکر یا دروازہ بند کرکے چار پانچ افراد کیساتھ شعار اسلام قائم رکھا، جن لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ جمعہ اور باقی نمازوں میں کیا فرق ہے اور شعار کس پرندے کا نام ہے، وہ بھی آج کے دور میں مفتی مولانا کہلا رہے ہیں، اسلام نے شعار اسے قرار دیا ہے جس کے وجود سے اسلام کا غلبہ، تفوق، اظہار، اعلان ظاہر باہر ہو، اسی لیے تو تہجد اور اشراق کی نماز یا فرداً فرداً نماز پڑھنے کو شعار نہیں کہا گیا، شعار کہتے ہیں، باجماعت نماز، قربانی، عیدین، جمعہ، داڑھی وغیرہ کو حج کو، گائے کی قربانی کو نہ کہ مرغی ذبح کرنے کو شعار کہا جائے گا، اب رہا یہ مسئلہ کہ حکومت یا پولیس والے زبردستی مسجدیں بند کرادیں، کسی طرح چار پانچ لوگ خفیہ طور پر مسجد پہنچیں یا یہ کہ اگر دروازہ لاک نہ کیا جائے اور لوگوں کی بھیڑ آجانے کے سبب پولیس والے ماریں،  پیٹیں، ایف آئی آر کریں تو ایسی صورت میں شریعت نے کب کسی امام ومولانا یا مفتی سے یہ کہا ہے کہ کسی بھی صورت آپ کو جمعہ پڑھانا ہی ہے؟ نہیں بلکہ شریعت نے کہا کہ اگر شرطیں نہیں پائی جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر پڑھیں آپ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں، ایام قربانی میں کوئی ظالم حکومت پابندی لگادے کہ ذبیحہ نہیں ہوسکتا نہ اونٹ نہ گائے بیل بھینس نہ بکرا بکری نہ بھیڑ دُنبہ تو کیا شعار قائم رکھنے کے لیے مرغی قربان کریں گے؟
جمعہ، عیدین یا قربانی یا کوئی اور عمل اس وقت شعار قرار پائے گا جبکہ از روئے شرع اس کا ثبوت صحیح وجائز ہو، زفاف کے بغیر ولیمہ کس بات کا؟ بچہ پیدا ہی نہیں ہوا تو عقیقہ کیسا؟ عید کا چاند ہوا نہیں تو پھر عید کیسی؟ٹھیک اسی طرح اگر شرطیں نہ پوری ہوں تو جمعہ کیسا؟ ظہر پڑھنا فرض اور جو لوگ جان بوجھ کر بغیر تحقق شرائط کے جمعہ کے نام پہ کچھ کریں گے تو جمعہ تو ہوگا نہیں اپنی ظہر اور مقتدیوں کے ظہر ترک کرانے کے ذمہ دار وگنہگار ضرور ہونگے، اتنی بات سمجھنے کے لیے مجھے نہیں لگتا کہ کسی بڑے فقیہ ومجتہد اور محقق کی ضرورت ہے۔ یہ عام سی بات ہے اور اگر اتنی بھی سمجھداری نہیں تو ایسے لوگوں کو امامت ومولوی گیری کی بجائے کوئی اور کام کرنا چاہئے، میرا مطلب یہ نہیں کہ جبہ پہن کے سبزی کا ٹھیلہ لگائیں بلکہ کتابوں، ٹوپیوں، اسٹیکرز وغیرہ کی تجارت کرلیں بس اتنا دھیان رکھیں کہ کتاب بیچتے بیچتے عقیدہ ومذہب نہ بیچ ڈالیں۔ اذن عام کے تعلق سے جو باتیں میں نے اوپر ذکر کی ہیں اسی کو فقہی انداز میں جماعت اہل سنت کے ذمہ دار علما اور مفتیوں نے لکھا، آپ سب کے پیش نظر ہوگا، حضرت علامہ مفتی شمشاد احمد برکاتی مصباحی استاذ جامعہ امجدیہ کا فتویٰ جس کی تصدیق و تائید حضور محدث کبیر علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ صاحب قبلہ قادری مد ظلہ العالی نے فرمائی ہے، بلا شبہ حضرت کی ذات اور شخصیت ہم سب کے لیے نمونۂ اسلاف اور حجت ہے۔ ان کی تصدیق کے باوجود تحقیق جدید کی رٹ لگانا اور حیلہ بہانہ تلاش کرنا قیامت کی نشانی نہیں تو پھر کیا ہے؟ ارے یہ وہی ہیں جن پر حافظ ملت، مجاہد ملت اور حضور تاج الشریعہ جیسے حضرات اعتماد فرماتے رہے، اس واضح فتوے کے بعد ایک اور تفصیلی مدلل فتوی حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن صاحب رضوی مظفر پوری کا پھر(اس کے بعد) ۲۵؍ شعبان ۱۴۴۱ھ کا تحریر کردہ ایک نہایت شاندار مسکت ومبرہن فتویٰ علامہ قاضی شہید عالم رضوی بریلی شریف کا عام ہوچکا ہے، پھر بھی کچھ حضرات بضد ہیں کہ دروازہ بند ہونے کی صورت میں بھی اذن عام ثابت ہے، دلیل میں قلعہ کے دروازہ کے بند ہونے کو پیش کر رہے ہیں، تھوڑی عقل والا بھی یہ بات جانتا ہے کہ مسجد اور قلعہ میں کتنا فرق ہے، قلعہ کسی بادشاہ اور امیرو کبیر کا ہوتا ہے۔ قلعہ کا دروازہ عموماً بند رہتا ہے احتیاط کے پیش نظر ۔جب ضرورت ہوتی ہے تو کھلتا ہے۔ وہاں دربان رہتے ہیں۔ آنے جانے والوں کی تحقیق کرتے ہیں کہ کہیں کوئی ایسا شخص نہ داخل ہوجائے جس سے بادشاہ کی جان، مال، سلطنت کو کوئی خطرہ ہو۔ اب اگر قلعہ کے اندر مسجد ہے یا قصر شاہی میں جمعہ قائم ہوتا ہے تو قلعہ کا گیٹ بند ہونے سے اذن عام پر فرق نہ پڑے گا اس لیے کہ اہل قلعہ کو جمعہ پڑھنا ہے وہ قلعہ کے اندر ہی ہیں یا جو باہر سے آنے والے ہیں ان پر کوئی روک نہیں، ان کے آنے پردروازہ کھلے گا، دربان انہیں نہیں روکے گا اس لیے کہ یہاں دروازہ کا بند ہونا یا دربان کا پہرہ دینا نمازیوں کو روکنے کے لیے نہیں۔ لیکن آج کی صورت حال میں قلعہ کا دروازہ نہیں مسجدوں کے دروازے بند کیے جارہے ہیں، امام ومؤذن یا مسجد کا کوئی ذمہ دار مائک سے اعلان کر رہا ہے کہ آپ لوگ مسجد میں نہ آئیں، اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔ اب بتائیے اگر یہ بھی آپ کے نزدیک اذن عام ہے تب تو دھڑلّے سے نریندر مودی جی کو کہنا چاہئے کہ لاک ڈاؤن کا مطلب مکمل آزادی ہے، ہندوستان کے ہر ہندو، مسلمان، پڑھا لکھا، جاہل سب نے سمجھ لیا کہ لاک ڈاؤن کا مطلب مکمل تعطل لیکن مدرسے کے مولوی صاحبان بند دروازے کو اذن عام کے عین مطابق سمجھ رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی ایسی عبارت پیش کیجئے جس میں یہ لکھا ہو کہ مسجدوں کے دروازے بند کرنے کی صورت میں بھی اذن عام ہے، بلا دلیل اپنی بات بنانے کے لیے یہ کہدینا کہ مسجد اور قلعہ دونوں میں کوئی فرق نہیں، اس لیے کہ مسجد اور قلعہ دونوں جگہ صحت جمعہ پایا جارہا ہے، یہ صریح دھوکہ اور فریب ہے۔ ابتدائے اسلام سے لیکر اب تک کوئی ایک مثال پیش کیجئے جس سے یہ ثابت ہو کہ مسجدوں کے دروازوں کو لاک (Lock) کرنے کی اجازت کسی مفتی ومحقق نے دی ہو، نہ معلوم کتنی دفعہ پلیگ، طاعون اور وبائی امراض سے دنیا دوچار ہوئی لیکن مسجدوں کو بند نہ کیا گیا، جماعت پر پابندی نہ لگی، سچ تو یہ ہے کہ انڈین حکومت نے بھی یہ نہ کہا کہ آپ مسجدوں میں قفل ڈال دیں بلکہ آپ حضرات کے مطابق چار پانچ افراد کی اجازت دی لیکن مسجدوں میں تالا لگانے اور بند کرنے کی وکالت وہ حضرات کر رہے ہیں جن کو حکم دیا گیا تھا مسجدوں کے آباد کرنے کا، اگر مفتی اور مولانا کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ مسجدوں میں تالا بند کراکے جمعہ پڑھائیں اور پڑھنے کی اجازت دیں تو اس قسم کے مفتیوں، اماموں اور فرقہ پرست طاقتوں میں کیا فرق ہے؟ تالا بند کرکے یا دروازہ بند کرکے اذن عام ثابت کرنا درحقیقت تساہل پسند سادہ لوح عوام، نادان دیندار اور حکومتوں کی سرخروئی حاصل کرنے والا فتویٰ ہے، اس قسم کے فتووں کو کوئی سچا مسلمان تو ہرگز نہیں تسلیم کرے گا۔ ہاں! فرقہ پرست اور مذہب بیزار لوگ ضروری پذیرائی کریں گے اور سروں پہ اٹھائیں گے۔ مفتی کا  کام احکام شرع بیان کرنا ہے نہ کہ آسانی کے نام پر حکومتوں کا آلۂ کار بننا اور خدا ورسول کو چھوڑ کر دنیا پرستوں کا معاون، اللہ تعالیٰ اس قسم کے لوگوں کو عقل سلیم اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
موذی اور نمازی:
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھنے کی غرض سے مسجد جارہا ہے، مفتی اسے موذی بتاکر جانے سے روک رہا ہے، پھر بھی یہ دعویٰ ہے کہ یہی تحقیق حق ودرست ہے، اب تک مولانا، مفتی اور اہل مسجد ومدرسہ اس بات کا رونا روتے تھے کہ عوام ہماری بات نہیں مانتی، مسلمان نماز نہیں پڑھتے مسجدوں سے دور ہیں، بڑے زور وشور سے یہ شعر پڑھا اور لکھا جاتا
مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من  اپنا  پرانا  پاپی  تھا  برسوں  میں  نمازی  بن  نہ  سکا
اب وہی حضرات مسجدوں میں نمازیوں کی بھیڑ روکنے کے لیے تالا لگانے کی صورتیں بتا رہے ہیں، وہ یہ بھی نہیں سوچ رہے ہیں کہ آپ کے یہ بیکار کے فتوے اور لایعنی تحقیق کل سب کے لیے درد سر بنے گی، حکومت اور پولیس والے جب چاہیں گے مسجدوں میں اذان ونماز وجماعت بند کرادیں گے اور ان کی دلیل آپ کا فتویٰ بنے گا جیسے پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ کعبہ بند، مسجد نبوی بند حالانکہ کسی کو کیا خبر کہ موہن بھاگوت صاحب اور نام نہاد عرب حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں۔
دروازہ بند کرنے کی وکالت کرنے والوں کا قیاس:
ایک قیاس یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا گیا حالانکہ اگر وہ پردہ کے ساتھ جمعہ پڑھیں تو اُن کا جمعہ صحیح پھر بھی خوف فتنہ کے باعث روکا گیا اور یہ اذن عام کے منافی نہیں اسی طرح بیماری کے اندیشہ کے سبب اگر تالا لگایا جائے تو یہ بھی اذن عام کے خلاف نہیں ہوگا، اپنے دعویٰ کو مضبوط کرنے کے لیے یہ کہا گیا کہ سب کے سب صحابہ عادل اور خیر وصلاح والے تھے، وہ دور فتنوں سے عموماً محفوظ تھا اس لیے کہ خیر القرون تھا، جو مرد تھے وہ صحابی یا تابعی اور جو خواتین تھیں وہ صحابیہ اور تابعیہ، ظاہر ہے کون ان کے بارے میں شک وشبہ کر سکتا ہے؟ پھر بھی اندیشہ کے سبب حضرت عمر کے دور میں ان کو مسجدوں میں جانے سے روک دیا گیا۔
اب اس پر معارضہ ملاحظہ فرمائیں:
اول تو خیر القرون کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس زمانے میں سارے لوگ معصوم تھے، بشریت اٹھالی گئی تھی اور اس کی جگہ ملکوتیت آگئی تھی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام زمانوں کی بہ نسبت بہتر اور صحابہ کے عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے خطا ہوتی ہے تو اللہ اپنے فضل سے معاف فرمادے گا اور بغیر تو بہ وہ دنیا سے رخصت نہیں ہونگے۔ اللہ عز وجل ارشاد فرماتا ہے ’’اے نبی کی بی بیو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے، ہاں اچھی بات کہو، اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو، اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی” (الاحزاب سورۃ نمبر۳۳؍ آیت ۳۲؍ ۳۳)
حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ’’لو ادرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل‘‘
اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرماتے عورتوں نے جو اب حال بنا رکھا ہے تو ضرور انہیں مسجدوں سے منع فرمادیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا (سنن ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
آخر حضرت سیدہ عائشہ نے کیا محسوس کیا تھا کہ یہ فرمایا کہ عورتوں کی موجودہ حالات کو حضور دیکھتے تو مسجدوں سے روک دیتے، کیا اس سے پتہ نہیں چلتا کہ حالات بدلے تھے؟ ورنہ حضرت عائشہ یہ نہیں کہتیں ما احدث النساء  یہ جملہ بتا رہا ہے کہ اندیشہ اندیشہ ہی نہیں تھا بلکہ ان کا یہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عائشہ نے تبدیلیٔ حالات کو دیکھا اور یہ سمجھ لیا کہ اب عورتوں کو مسجدوں میں جانے دینا فتنوں کا دروازہ کھولنا ہے۔
اچھا کیا مدینہ میں صرف مسلمان اور صحابہ صحابیات ہی تھے یا اور قومیں اور دھرموں کے لوگ بھی تھے؟ ممکن ہے کہ راستوں میں غیر مسلمانوں کی نظریں پڑتیں، منافقین جو بظاہر مسلمان تھے اور سب سے اہم بات یہ کہ اگر صحابہ نے اس وقت خواتین کو نہ روکا ہوتا تو بتائیے آج اگر مسجدوں میں خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہوتیں تو کون روک سکتا تھا؟ آج اگر کوئی کہتا کہ فتنہ سامنے ہے لہذا عورتیں مسجدوں میں نہ آئیں تو کیا عورتیں نہ کہتیں کہ جب حضور اور صحابہ نے نہ منع کیا تو آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے؟ ہم تو نماز کے لیے آرہے ہیں آپ ہمیں روک رہے ہیں جبکہ آپ کو خاطیوں کو روکنا چاہئے، تو بتائیے آج کیا حال ہوتا؟
حضور نے حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ سے فرمایا   احتجبا منہ فقلت یا رسول اللہ الیس ھو اعمیٰ لا یبصرنا ولا یعرفنا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افعمیا وان انتما الستما تبصرانہ حضرت ام سلمہ وحضرت میمونہ حضور کی خدمت میں تھیں کہ حضرت عبد اللہ بن مکتوم نابینا صحابی آگئے، حضور نے ازواج مطہرات سے فرمایا پردہ کرو ان سے، حضرت ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا وہ نابینا نہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتے نہ پہچان سکتے ہیں تو سرکار نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم انہیں دیکھ رہی ہو؟
(ترمذی ابواب الاستیذان والآداب)
یہ خطاب اسی خیر القرون میں ہو رہا ہے۔ ان سے ہو رہا ہے جن کو قرآن کہتا ہے اے نبی کی بی بیو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو، عورتوں کے منع پر قیاس بالکل فضول اور عبث ہے، عورت سے متعلق فتنہ ظاہر وباہر ہے، کیا خیر القرون میں حد زنا نہ قائم ہوئی، ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی شریک بن سحما کے تعلق سے، بیوی نے انکار کیا، حالانکہ ہلال بن امیہ کی بات صحیح ثابت ہوئی، حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی۔ حضور کے حکم سے پہلے ہی انہوں نے اپنی بیوی کو جدا کردیا، حضور نے ماعز رضی اللہ عنہ اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سراحہ لائی گئی جو شادی شدہ تھی، زنا کی مرتکب ہوئی تھی، حضرت علی نے رجم کرایا۔ کیا یہ تمام واقعات اندیشہ اور خوف ہیں؟ نہیں! بلکہ واقع ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ بعض میں پایا گیا اور بعض میں مظنون تھا۔
شراب کی حد نہ لگائی گئی، ام المومنین پر کیا اتہام نہ جڑا گیا؟ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب میری برأت کی آیتیں اتریں تو حضور نے دو مردوں اور ایک عورت کو حد قذف لگائی۔
بعد میں قرآن نے حضرت صدیقہ کی برأت فرمائی، کیا آپ سے یہ پوشیدہ ہے کہ تہمت کی جگہوں سے بچو، پھر عورتوں پر جمعہ کب فرض ہی تھا؟ ہاں! ابتدا میں آنے کی رخصت تھی الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الا اربعۃ عبد مملوک او امرأۃ اوصبی او مریض قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے چار کے سوا، مملوک غلام، عورت، بچہ اور مریض (سنن ابو داؤد بیان جمعہ) اس مفہوم کی ایک روایت حضرت جابر سے مروی ہے جسے تفسیر ضیاء القرآن نے الدار قطنی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
غرضیکہ صحابہ اور صحابیات کے خوف اور اندیشہ کو آج کے ڈاکٹروں کے اندیشہ پر قیاس کرنا کتنی مذموم بات ہے شاید آپ محسوس کریں۔
رہا آپ کا دوسرا قیاس تو کرونا وائرس کے ماہاماری کے دور میں آپ کا دوسرا قیاس بھی باطل ہے، شرع نے کہا کہ کسی کی زبان سے ایذا پہنچے تو اس کو اس بنیاد پر مسجد سے روکا جائے گا یا کسی نے کچی پیاز ولہسن کھایا تو بدبو کے سبب اس کو روکا جائے گا کیونکہ اس ایک دو یا چند کی وجہ سے پوری جماعت کو پریشانی میں نہیں مبتلا کیا جائے گا، تو کیا یہ سیکڑوں، ہزاروں جو نمازی مسجدوں کے لیے آتے ہیں وہ سب موذی ہیں ان چار پانچ مخصوص لوگوں کے لیے؟ ہرگز نہیں۔ جس طرح اندر والے نمازی ہیں اسی طرح جن کو آپ روک رہے ہیں وہ بھی نمازی ہیں، آپ کا اندیشہ ہے کہ ان کی وجہ سے جو اندر ہیں وہ بیمار پڑسکتے ہیں، یہ صرف وہم اور خیال ہے، ابھی تک انڈیا میں جہاں کی آبادی سوا ارب سے زائد ہے، یہاں ابھی متاثرین کی تعداد (مضمون لکھے جانے تک)  پچھتر ہزار سے زائد نہیں ہے، اس میں ہندو بھی ہیں مسلمان بھی، اتنی بڑی آبادی میں اتنی قلیل مقدار کے سبب ہزارہا ہزار نمازیوں کو موذی بتاکر جماعت وجمعہ سے روک دینا کیا کسی مفتی کا کام ہے؟ ارے یہ کام تو شیطان کا تھا جسے اب اس عہد کے مفتی کرنے لگے ہیں۔
لاک ڈاؤن (Lockdowan) کے تیسرے مرحلے میں گورنمنٹ شراب کی دوکانیں کھولنے کی اجازت دے رہی ہے، پان کی دوکان کھل سکتی ہے مگر دھرم استھل نہیں کھلیں گے، یہ کیسا سیکولر اسٹیٹ ہے یا کون سا راج ہے کہ شراب کی دوکان کھولنے کی اجازت دی جارہی ہے اور مسجدوں میں تالا؟
قرآن کہتا ہے ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعیٰ فی خرابھا اور اس سے بڑھکر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں کو روکے ان میں خدا کا نام لیے جانے سے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے اولئک ماکان لھم ان یدخلوھا الا خائفین ان کو نہ پہنچتا تھا کہ مسجدوں میں جائیں مگر ڈرتے ہوئے (البقرۃ آیت ۱۱۴)
حکومتوں سے کیا شکوہ کریں جب علما وکالت کرنے لگیں کہ دروازہ بند کرکے بھی اذن عام حاصل ہے۔ کیا حضور نے مسجدوں کی جماعت سے کوتاہی برتنے والوں کے لیے نہ فرمایا ’’بیشک میں نے ارادہ کیا کہ لوگوں کو نماز کی اقامت کا حکم دوں پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے، پھر میں ایسے آدمیوں کو اپنے ساتھ لیکر جاؤں جن کے ساتھ لکڑیوں کے گٹھے ہوں اور ان لوگوں کے پاس جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے تو ان کے گھروں کو آگ لگا دوں‘‘۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے ایسا کوئی نہیں جس کے گھر میں مسجد نہ ہو (یعنی سنت ونوافل کے لیے گھر کا مخصوص حصہ) ولو صلیتم فی بیوتکم وترکتم مساجدکم ترکتم سنۃ نبیکم ولو ترکتم سنۃ نبیکم لکفرتم اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو گے اور اپنی مسجدوں کو چھوڑوگے تو تم نے اپنے نبی کا طریقہ چھوڑا اور اپنے نبی کے طریقے کو چھوڑوگے تو کفر کیا (سنن ابو داؤد) کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کے لیے مسجد سے دوری کفر کا سبب ہوسکتا ہے؟
عذر اس وقت قابل قبول ہوگا جب عند الشرع عذر ہو نہ کہ حکومتوں اور عوام کے پسند اور رعایت کی خاطر احکام بدلے جائیں گے۔
اب ہم یہاں سے کرونا وائرس سے متعلق کچھ باتیں بیان کر رہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جن حضرات نے مسجدوں کے دروازوں کو بند کرکے جمعہ پڑھنے کو صحیح بتایا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ موذی کو مسجد میں آنے سے روکنا اذن عام کے خلاف نہیں، اس لیے جس بھیڑ کو دروازہ بند کرکے روکا جا رہا ہے ان کو نمازی سمجھ کر نہیں بلکہ ان کی بھیڑ کی وجہ سے کرونا پھیلنے کا اندیشہ ہے چونکہ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ کس میں وہ بیماری ہے کس میں نہیں ہے اس لیے بیماری کے پھیلنے کے اندیشہ کے پیش نظر دروازہ بند کرنا ناجائز نہیں، حالانکہ حدیث میں بہت واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا گیا، بیماری اڑ کر نہیں لگتی لابن جریر عن ابی قلابہ وفی قسمہ الاول بلفظ لاعدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفر واتقوا المجذوم کما تتقوا الاسد امام جلال الدین اپنی جامع کبیر میں ابو قلابہ کے حوالہ سے امام ابن جریر کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس لفظ سے لائے ہیں اور اس کی پہلی قسم میں ان الفاظ سے لائے ہیں۔ اب بتوفیق اللہ تعالیٰ تحقیق حکم سنئے اقول وباللہ التوفیق۔ احادیث قسم ثانی (لاعدوی) تو اپنے افادہ میں صاف صریح ہیں کہ بیماری اڑکر نہیں لگتی، کوئی مرض ایک سے دوسرے کی طرف سرایت نہیں کرتا۔ کوئی تندرست بیمار کے قرب واختلاط سے بیمار نہیں ہوتا، جیسے پہلے شروع ہوئی اسے کس کی اُڑ کر لگی؟ ان متواتر وروشن وظاہر ارشادات عالیہ کو سن کر یہ خیال کسی طرح گنجائش نہیں پاتا کہ واقعتاً بیماری اڑکر لگتی ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانۂ جاہلیت کا وسوسہ اٹھانے کے لیے مطلقاً اس کی نفی فرمائی ہے۔ پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم واجلّہ صحابہ کی عملی کاروائی مجذوموں کو اپنے ساتھ کھلانا، ان کا جھوٹا پانی پینا، ان کا ہاتھ اپنے ہاتھے سے پکڑ کر برتن میں رکھنا، خاص ان کے کھانے کی جگہ سے نوالہ اٹھاکر کھانا، جہاں منہ لگاکر انہوں نے پیا بالقصد اسی جگہ منہ رکھ کر خورد نوش کرنا، یہ اور بھی واضح کر رہی ہے کہ عدوی یعنی ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جانا محض خیال باطل ہے، ورنہ اپنے آپ کو بلا کے لیے پیش کرنا(اس کو) شرع ہرگز روا نہیں رکھتی (فتاویٰ رضویہ ج ۲۴؍ ص ۲۳۷)
حدیث چونکہ دونوں قسم کی ہیں، ایک یہ کہ مجذوم سے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو یعنی بچو، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جذام پھیلنے والی بیماری ہے جب ہی حضور نے مجذوم سے بچنے کو کہا جبکہ دوسری حدیثوں میں فرمایا کہ بیماری اڑکر نہیں لگتی، اگر دوسرے کو پہلے سبب سے بیماری ہوئی تو پہلے کو کیسے ہوئی اور اس کی عملی تائید ان حدیثوں سے ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما سفید داغ والے مریضوں کو اپنے ساتھ کھلاتے پلاتے۔ بظاہر دونوں روایتوں میں تعارض ہے، لیکن اس کا حل علما نے یہ فرمایا کہ مجذوم سے بچنے کا حکم استحبابی (فتاویٰ رضویہ ج ۲۴؍ ص ۲۶۵) ہے کہ کہیں بحکم الٰہی کسی کو مرض لاحق ہوگیا تو وہ اپنی ضعف اعتقادی کی بنیاد پر یہی خیال کرے گا کہ مجذوم کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے کے سبب ایسا ہوا، اگر اس کے پاس نہ گیا ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں۔ اللہ کی مرضی سے پہلے کو بیماری لگی اور دوسرے کو بھی بتقدیر الٰہی لگی نہ کہ ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے۔ لیکن مسلمانوں کا ایمان اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ ڈاکٹر کہہ دیں کہ ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے آدمی بیمار پڑجاتا ہے تو یقین کرلیتے ہیں بلکہ مسئلہ بھی ڈاکٹروں کے حساب سے بدل لیتے ہیں لیکن حضور فرما رہے ہیں اور عمل کرکے دکھا رہے ہیں، حضرت ابوبکر وعمر عمل کرکے دکھا رہے ہیں اس پر مسلمانوں کا صحیح اعتقاد نہیں، حد تو یہ ہے کہ عوام کا اعتقاد نہ بیٹھے ان کے ضعف ایمانی کے سبب لیکن مفتیوں کا عقیدہ ضعیف ہی نہیں بلکہ اضعف سے نیچے درجے میں پہنچ چکا ہے، جب ان تک یہ حدیث پہنچی کہ بیماری اڑ کر نہیں لگتی تب انہوں نے پھر نیا حربہ ڈھونڈا اور کہا کہ حدیث میں تو یہ ہے کہ بیماری اڑ کر نہیں لگتی یہ تھوڑی کہا کہ وائرس اڑکر نہیں لگتے؟ حدیث میں بیماری کے متعدی ہونے کی نفی ہے، اسباب بیماری کے متعدی ہونے کی نفی نہیں، پھر یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ وائرس ایک زندہ مخلوق ہے اور وہ موذی ہے، ہم دروازہ بند رکھنے کا جو حکم دے ہے ہیں اس زندہ نئی مخلوق کو روکنے کے لیے، جو موذی ہے استغفر اللہ ربی من کل اوھام الشیاطین علما کو قرآن وسنت اور اقوال ائمہ پر بھروسہ کرنا چاہئے نہ کہ آج کل کے اطبا کی باتوں پر۔ اگر اسی طرح آنکھ بند کرکے علما اطبا کی باتوں پر یقین کرنے لگیں تو مذہب کی بہت سی باتوں سے ہمیں دستبردار ہونا پڑے گا جو کہ ایمان واسلام کے صریح خلاف ہے۔
لاعدوی کے ذریعہ حضور نے صرف بیماری کے متعدی ہونے کی ہی نہیں بلکہ ہر اس چیز کی نفی فرمائی ہے جس کے بارے میں یہ عقیدہ ہو کہ وہ بذات خود مؤثر ہے خواہ وہ بیماری ہو یا اسباب بیماری جس کو وائرس یا جراثیم وغیرہ کہتے ہیں، اپنے آپ نہ بیماری کسی اور کو نقصان پہنچاسکتی ہے نہ وائرس جب تک کہ خدا کی مرضی نہ ہو۔ تو یہ حیلہ تراشنا کہ حدیث میں بیماری کے اڑکر لگنے کی نفی کی گئی ہے وائرس کے اڑنے کی نفی نہیں کھلا ہوا فریب اور دھوکہ ہے، دین کی باتوں کی من مرضی تشریح اور اس کو یوں بھی تعبیر کرسکتے ہیں یہ دین کا مسئلہ نہیں یہ تو من کا مسئلہ ہوگا۔
دروازہ بند کرکے جمعے کا جواز تلاشنے والے حضرات نے دعویٰ کیا کہ وائرس ایک زندہ اور نئی مخلوق ہے۔ ہم آگے اس کا جائزہ لیں گے کہ وائرس کیا ہے اور وہ زندہ ہے یا مردہ؟ لہذا جب زندہ مخلوق ہے اور موذی ہے تو اس کو روکنا نمازی کو روکنا نہیں ہوا، وائرس کو سمجھانے کے لیے مثال میں جوئیں کو پیش کیا ہے، کہ جن کے سروں میں جوئیں ہوتی ہیں سر کھجاتا ہے، سر اپنے آپ نہیں کھجاتا بلکہ انہیں جوؤں کی وجہ سے سر میں کھجلی ہوتی ہے لہذا جوؤں کو مارنا اس آدمی کو مارنا نہیں اسی طرح وائرس کی وجہ سے کسی کو روکنا نمازی کو روکنا نہیں۔
مفتی صاحب بہت دور کی کوڑی ڈھونڈ کر لائے ہیں، پہلی بات تو یہ کہ خواہ چودہ سو سال پہلے بیماریاں ہوتی تھیں یا ابھی کسی بھی بیماری کے اسباب ڈاکٹروں کے اعتبار سے انفکشن اور جراثیم ہی ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ پہلے جانچ نہیں ہوتی تھی اور لوگ اس نام سے واقف نہیں تھے، ۱۸۹۲ء میں تمباکو کے پتوں سے وائرس کا پتہ چلا تھا۔ اس کے کافی سالوں کے بعد الیکٹرون مائکرو اسکوپ (Electron Micro Scope) وجود میں آیا۔
ہم اس پر گفتگو کریں گے، پہلے ہم جوں (ایک کیڑا جو سر کے بالوں میں ہوتا ہے) کی مثال دیکر کرونا وائرس کے شبہ کے پیش نظر نمازیوں کے روکنے کے جواز کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کسی چیز کی مثال ایسی دینی چاہئے جو اصل شئی یا معاملہ کے مطابق ہو، فقیہ کے سر اور دماغ کی مثال اگر کوئی گدھے کے سر سے دینے لگے تو یہ توہین ہے کہ نہیں؟ بالکل توہین ہے۔ اس قسم کی مثال کوئی ناسمجھ ہی دے گا، نادان کے نزدیک آدمی اور گدھے کے سر میں کوئی فرق نہیں حالانکہ ایسا نہیں، یہ میں نے اس لیے کہا کہ مسجدوں کے دروازہ بند کراکر جمعہ پڑھنے کا حکم صادر کرنے والے حضرات نے غلط مثال کے ذریعہ مقررہ اور منصوبہ بند نتیجہ حاصل کرنا چاہا، سڑے ٹماٹر کی چٹنی بھی بدبو دار ہی ہوگی، سرکے جوں کی مثال پر ایک لطیفہ یاد آیا، کسی احمق کے گھر میں چوہا گھس گیا تو اس نے گھر میں آگ لگا دیا کہ آگ لگے گی تو چوہا یا تو نکل کر بھاگ جائے گا یا جل جائے گا، سوچئے کیا چوہے کو گھر سے نکالنے کا یہ طریقہ کوئی عقل مند اختیار کرسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اسی طرح کوئی عقل مند مفتی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی میں کرونا وائرس ہو اس لیے تمام نمازیوں پر دروازہ بند کر دو، کہیں ایسا نہ ہوکہ پولیس خود تالا لگا دے یا جو اندر ہیں وہ کرونا Positive (سے متأثر) ہوجائیں۔ امام، مولانا اور مفتی کے دروازہ بند کرانے سے بہتر ہے کہ پولیس یا کوئی ظالم آفیسر بند کرائے اور جب سارے کے سارے مقتدیوں پر مسجد بند ہے تو پھر امام مؤذن کی کیا ضرورت؟ مقتدی نہیں تو امام مؤذن اور متولی کس کام کے؟؟؟
۔
(نوٹ: مضمون نگار حضور تاج الشریعہ کے خلیفہ ہیں اور اکابر علما کے معتمد ہیں۔  فون نمبر یہ ہے:
7753837718


اشرفیہ مبارکپور کےمفتی نظام الدین نے کھُلے کفر (صریح کفر)  کو ایمان کی نشانی کہا۔ معاذاللہ! تفصیل جاننے کیلئے کلک کریں۔

Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

Don`t copy text!