Mufti Nizamuddin Jawab Den (1)

مضمون  نمبر (۱)
فیصلۂ حقہ صحیحہ سے بغاوت

۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صدر رویت ہلال کمیٹی گھوسی حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری دام ظلہ العالی نائب قاضی اسلام فی الھند نے ۱۲ مئی ۲۱ء ۲۹ رمضان ۴۲ھ بدھ کو درجنوں علما، فقہا و دانشوران دین کی موجود گی میں چار عادل، متدین و متشرع گواہان سے ہلال شوال ۴۲؁ھ کی شہادت قبول فرماکر فیصلہ صادر فرمایا کہ ۱۳؍مئی ۲۱؁ء جمعرات کو عید الفطر کا دن ہے۔ اس کی خبر پاتے ہی جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے مفتی محمد نظام الدین نے بلا تاخیر اس کے خلاف اعلان جاری کیا کہ عید کا چاند نظر نہ آیا، تیسویں رمضان کا روزہ فرض ہے۔ پھر اپنا اعلان برقرار رکھنے کے لیے محدث کبیر کے فیصلہ کو باطل قرار دینے کے در پے ہوگئے۔ اس کے لئے گھوسی کے چند لوگوں کے فون کا حوالہ دے کر دعوی کیا کہ گھوسی کا مطلع صاف تھا اور مطلع صاف ہو تو چار افراد کی شہادت کچھ معنی نہیں رکھتی۔ لہٰذا محدث کبیر کا فیصلہ لغو اور شہادت قبول کرنا بے معنی ہے۔
      اپنی بات کو باوزن بنانے کے لئے بہار شریعت اور فتاوی رضویہ کی ادھوری عبارت نقل کی، ساتھ ہی تین صفحاتی مضمون، کال ریکارڈنگ اور فیس بک واٹس ایپ سے ایسا واویلہ مچایا کہ امت مسلمہ اضطراب و اختلاف اور سخت انتشار کا شکار ہوگئی، جب کہ مفتی نظام الدین کا یہ وہم کہ گھوسی کا مطلع صاف تھا بالکل غلط، قطعاً غلط ہزار بار غلط تھا۔ اس لئے کہ گھوسی کا مطلع ابر آلود تھا۔ یہاں صبح آندھی آئی، بارش ہوئی، دوپہر میں بھی بارش ہوئی اور شام میں بھی۔ اس طرح دن بھر ابر کا اثر نمایاں رہا تو مفتی صاحب کا مدار حکم نابود تھا، لہذا محدث کبیر کا فیصلہ نافذ اور شہادت قبول کرنا برحق تھا ۔
اب سوال یہ ہے کہ مفتی صاحب نے فون کرنے والوں کے نام چھپانے کا مجرمانہ کام کیوں کیا..؟
کیا ان کے نزدیک اتنے فون پہنچ گئے تھے کہ ان کے اذعان و ایقان کا مطلع صاف ہوگیا اور فونی استفاضہ حاصل ہوگیا تھا؟
کیا ان کا نام ظاہر کرنا فتاویٰ رضویہ اور بہارشریعت کے خلاف تھا؟
حضور محدث کبیر الحمد للہ مفتی صاحب کے مسلم استاذ ہیں تو کم از کم ایک فون کرکے انہوں نے اپنے استاذ سے کیوں نہیں پوچھ لیا کہ گھوسی کا مطلع کیسا تھا؟ آخر اس میں کون سا حجاب حائل تھا ۔۔۔۔؟
ع کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
اگر استاذ سے پوچھنے کی جرأت نہ ہوسکی تو بغاوت فاحشہ کی جرأت کہاں سے در آئی؟
کیا یہی فتاوی رضویہ کے مطابق عمل ہے یا یہی تحقیقِ جدید ہے؟
بالفرض مطلع صاف رہا ہوتا جب بھی حضور محدث کبیر کا شہادت لینا اور ثبوت ہلال کا فیصلہ کرنا برحق اور عین مطابق فتاویٰ رضویہ و بہار شریعت تھا کہ بہار شریعت و فتاویٰ رضویہ دونوں میں بلندی سے اور صحرا میں چاند دیکھنے کی شہادت کو رد و عدم قبول سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ چنانچہ مفتی صاحب خود فتاوی رضویہ سے ناقل ہیں ’’مگر عیدین میں اگر مطلع صاف ہو اور مسلمان رویت ہلال میں کاہلی نہ کرتے ہوں اور وہ دو گواہ جنگل یا بلندی سے نہ آئے ہوں” (عید الفطر کے بارے میں جامعہ اشرفیہ کا فیصلہ ص ۲) اس کا یہی مفہوم و معنی ہے کہ مطلع صاف ہو تو جنگل میں یا بلندی سے چاند دیکھنے والے دو شاہدوں کی شہادت بھی قبول کی جائے گی۔ جمع عظیم درکار نہیں۔ خود اسی سے اسی میں ناقل ہیں ’’تو بحالت صفائی مطلع جب کہ شاہدین جنگل یا بلندی سے نہ آئیں‘‘
لیکن کمال ہے مفتی صاحب کا کہ انہوں نے فتاوی رضویہ و بہار شریعت کی استثنائی عبارت کی ایسی قبیح توجیہ کی کہ استثنا ہی باطل ہوگیا اور مفتی صاحب کا مدعا مبرہن ہوگیا۔ معاذاللہ استغفراللہ۔ اسی کو کہا جاتا ہے کہ
ع  ­ خود بدلتے نہیں شریعت کو بدل دیتے ہیں
اور مستثنیٰ کی یہ شکل مزید واضح انداز میں فتاویٰ رضویہ کے اندر اسی صفحہ میں موجود ہے مگر انہوں نے اسے چھوڑ دیا جو اس طرح ہے: ’’مگر راجح یہ ہے کہ جب شاہد میں یہ خصوصیت خاصہ ایسی ہو جس سے اس کا دیکھنا مستبعد نہ رہے مثلا عام لوگ شہر میں تھے اور اس نے جنگل میں دیکھا یا وہ زمین پر تھے اس نے بلندی پر دیکھا” ( فتاوی رضویہ ۸؍۲۶۲ امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)
کیا یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ فتاوی رضویہ کی اس استثنائی عبارت کو کیوں چھوڑا؟
اور بلندی سے کس چیز کی بلندی مرادہے؟
مکان کی بلندی سے چاند دیکھنے والے دو گواہوں کی شہادت کو مستثنیٰ قرار دینے کا حق کہاں سے ان کو ملا؟
اور بحالت صفائیٔ مطلع شاہدین کی تعداد متعین نہیں۔ اس کو قاضیِ شرع پر چھوڑا گیا،
پھر مفتی صاحب نے یہ ضد کیوں باندھ رکھی ہے کہ 4 آدمی جماعت کثیرہ نہیں؟
اس کو انا اور نفسانیت کی تسکین نیز امت مسلمہ کے ساتھ ظلم کا نام کیوں نہ دیا جائے؟
آپ کا تحفہ آپ ہی کے لئے مبارک ہو۔
✅   لاریب صداقت یہ ہے کہ گھوسی کا مطلع ابرآلود تھا اور چاند کی شہا دت دینے والوں میں خصوصیت خاصہ یہ تھی کہ انھو ں نے کلیتہ البنات الامجدیہ کی فلک بوس عمارت کی تیسری چھت پر چڑھ کر چاند دیکھا تھا۔ تو ان کا شہادت دینا درست اور محدث کبیر کا ان کی شہادت کو قبول کرنا بھی درست اور عین مطابق شرع و عین موافق فتاوی رضویہ و بہار شریعت ہوا تو محدث کبیر کے فیصلہ پر گھوسی اور مضافات گھوسی کے مسلمانوں کو عمل کرنا واجب ہوا۔ انہیں 30 ویں رمضان کو روزہ رکھنا حرام ہوا اور محدث کبیر کے یہاں سے کتاب القاضی الی القاضی لے جانا بھی برحق ہوا…
مگر مفتی (نظام الدین) صاحب کی ریکارڈیڈ کال، مضمون کی اشاعت، فیس بک اور فون وغیرہ سے مسلسل عید کرنے سے روکنے کی ریشہ دوانی کس قدر فتنہ خیز حرکت تھی؟
عوام سے اپیل ہے کہ مفتی صاحب سے پوچھیں کہ آپ نے فتاوی رضویہ، بہار شریعت اور شریعت پر عمل کا ڈھونگ محض اس لئے رچایا کہ محدث کبیر سے اپنے بغض و عناد کی بھڑاس نکال سکیں؟ ساتھ ہی عید کے دن روزہ رکھوانے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا ان سے حکم دریافت کریں۔
پھر طرفہ یہ کہ مفتی صا حب نے اپنے مضمون میں لکھا کہ “کوئی بھی صاحب تقوی و فتوی مفتی وہی فیصلہ لے گا جو اس ناچیز (مفتی نظام الدین) نے لیا ہے‘‘ (معاذ اللہ)
تو کیا شہادت صحیحہ اور فیصلۂ شرعیہ کو باطل ٹھہرانا تقوی ہے؟
کیا اپنے ظن و وہم کی بنیاد پر حکم شرع مسلط کرنا فتوی ہے؟
عید کے دن مسلمانوں سے روزہ رکھوانا کون سا تقوی ہے؟
مسلمانوں کو آپس میں لڑانا مفتی کا کارنامہ ہے؟
محدث کبیر کے فیصلۂ صحیحہ حقہ شرعیہ سے مفتی صاحب کی بغاوت نے یہ روشن کردیا کہ ان کا عمل بہار شریعت و فتاوی رضویہ کی تصریحات کے سراسر خلاف ہے اور وہ قوم و ملت کے خیر خواہ نہیں۔ اپنی شہرت کے لیے وہ اس طرح عبارات فقہا میں کتربیونت کر کے غیر شرعی نیا حکم بناتے رہتے ہیں اسی کو تحقیق مسائل جدیدہ کا نام دیتے ہیں ورنہ بتائیں کہ
(۱) نمازمیں لاؤڈ اسپیکرکے استعمال کا جواز کس طرح بہار شریعت یا فتاوی رضویہ کے مطابق ہے؟
(۲) نو فون کا آجانا کس طرح تواتر شرعی و استفاضۂ شرعی ہے؟
(۳) بوقت جمعہ مسجد کا دروازہ اندر سے بند کرنے کی صورت میں معنیٔ اذن عام بالکلیہ باطل ہوجاتا ہے، پھر کس طرح اذن عام برقرار؟
(۴) چلتی ٹرین پر نماز فرض و واجب بلا عذر پڑھنے کو جائز ٹھہرانا کس طرح بہار شریعت و فتاویٰ رضویہ کے مطابق ہے؟
(۵) بے دھڑک اپنی تصویر کھینچوانا اور چاند کی رویت کا اعلان کرنے کے لئے اپنی ویڈیو بنوانا کس طرح قرآن و حدیث نیز بہارشریعت و فتاویٰ رضویہ کے مطابق ہے؟
اس طرح کھلم کھلا احادیث وفقہ سے علم بغاوت بلند کرنے کے باوجود مفتی صاحب اپنے اندر خوف خدا و رسول اور حکم شرع، فتاویٰ رضویہ اور بہار شریعت پر عمل کا دم بھرتے ہیں،، اللہ اللہ
ع اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
حاصل یہ کہ مفتی محمد نظام الدین صاحب کی بہت سی غیر شرعی تحقیقات، درجنوں فتاوے، فتاوی رضویہ و بہار شریعت کے خلاف منظر عام پہ آچکے ہیں۔ اسی لیے اکابر اہل سنت و مشائخ ملت نیز ذمہ داران اہل سنت و جماعت انکے اختلافات و تحقیقات سے بیزار ہیں۔ عوام اہل سنت سے اپیل کرتا ہوں کہ موجودہ مفتی اشرفیہ سے اپنی بیزاری ظاہر کریں، انکی جدید تحقیقات سے نفرت کریں۔
ممکن ہے کہ اب مفتی صاحب کے بہی خواہ یہ کہیں کہ مفتی صاحب کو شبہہ ہو گیا کہ گھوسی کا مطلع صاف تھا اس لئے انھوں نے حکم صادر کردیا تو ادب سے عرض ہے کہ محض شبہہ پر حکم شرع صادر کرنا حرام ہے۔ مفتی صاحب سے کہیں کہ وہ اب اپنی تحریر و بیان، واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعہ یہ بیان دیں کہ “حضور محدث کبیر کا فیصلہ صحیح تھا۔ ساتھ ہی ساتھ توبہ کریں اور ان کے سبب جن لوگوں کی نماز عید چھوٹی اور ان سے گناہ ہوا ان کے لیے شرعی حل نکالیں۔”
ع دامن کو لیے ہاتھ میں کہتا تھا یہ قاتل
کب تک اسے دھویا کروں لالی نہیں جاتی
مفسدوں کو بڑی تشویش ہے کہ چاند گھوسی ہی میں کیوں نظر آیا؟ دوسرے کسی شہر گاؤں میں کیوں نہیں؟ تو عر ض ہے کہ اولا چاند صرف گھوسی میں نظر نہ آیا بلکہ لوہتہ بنارس اور بھدوہی میں بھی نظر آیا۔ ثانیا گھوسی میں ہر سال ۲۹ رمضان کوحضور محدث کبیر دام ظلہ العالی کے اہتمام میں 40 ۔50 علما، فضلا، حفاظ، قرا اور دانشوروں کو رویت ہلال اور افطار کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ایسا انتظام ملک کے کس قصبہ شہر یا گاؤں یا ادارہ میں کیا جاتا ہے؟ بتایا جائے اور ظاہر کہ کہیں نہیں۔
تو اگر اہل گھوسی پر رب کا کرم ہوجائے تو استبعاد کیا ہے؟ گھوسی کے علاوہ کہیں نظر آجائے تو موبائل، ٹیلیفون اور سوشل میڈیا کا بازار گرم کرکے کشمیر اور کنیا کماری سے نو فون لے کر فرضی استفاضہ بنایاجائے، لوگوں کا روزہ توڑوا دیا جائے لیکن گھوسی میں چاند نظر آجائے تو قبول کے لائق ہی نہیں! یہ کیسی دورخی پالیسی ہے؟ فیا للعجب!
آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے؟
قائد ملت قاضی القضاۃ فی الھند علامہ مفتی محمد عسجد رضا خان قادری بریلی شریف کی طرف سے عدم رویت کے اعلان کو بھی فساد پردازوں نے اپنی حقانیت کی برہان بنایا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضور قائد ملت نے عدم رویت و ثبوت ہلال کا جو اعلان کیا وہ عین شریعت اور حق تھا مگر مفتی نظام الدین صاحب نے جو کیا وہ محض فتنہ اور فساد تھا۔
والفتنۃ اشد من القتل
بعض لوگوں کو ایک اضطراب یہ ہے کہ حضور محدث کبیر پورے ہندوستان کے نائب قاضی ہیں تو انہوں نے اپنے اعلان میں گھوسی اور مضافات کی تخصیص کیوں کردی؟ مفتی نظام الدین کی طرح علی التعمیم اعلان کیوں نہ کیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ فتاوی رضویہ اور بہار شریعت اور عام کتب فقہ سب کا مفاد یہ ہے کہ (رویت ہلال کے بارے میں) فیصلہ اُسی شہر اور مضافات میں نافذ ہوتا ہے جس میں قاضی فیصلہ کرتا ہے۔ دوسرے شہر میں وہ فیصلہ جب تک ثبوت شرعی کے ساتھ نہ پہونچے، ہرگز نافذ نہیں، ہرگز قابل عمل نہیں۔ اسی لیے محدث کبیر اپنے اعلان میں ضرور لکھتے ہیں کہ ’’یہ فیصلہ گھوسی اور مضافات گھوسی کے لیے ہے‘‘ اسی سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حضور محدث کبیر فتاوی رضویہ، بہارشریعت اور دیگر کتب فقہ کے مسائل جانتے، ان کا استحضار رکھتے، ان پر عمل بھی کرتے ہیں جب کہ مفتی نظام الدین فتاوی رضویہ، بہار شریعت اور حکم شرع پر اپنے عمل اور علم کا محض اظہارکرتے ہیں اور حقیقت میں وہ بغاوت کرتے ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ علی العموم چاند کا اعلان تحریر، تقریر واٹس ایپ اور فیس بک، ویڈیو (جو حرام ہے) اور آڈیو سے کرتے اور کسی میں یہ نہیں ظاہر کرتے کہ ان کا اعلان محض مبارک پور اور مضافات کے لیے ہے۔
الحمد للہ اس وقت حضور محدث کبیر کی ذات گرامی اہل سنت کے لیے نعمت الہٰیہ ہے۔ اللہ ان کا سایہ دراز رکھے تاکہ اہل سنت کی صحیح رہنمائی ہوتی رہے۔
مسلمانو! ہوشیار رہو…
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مت کیسی متوالی ہے

 
از قلم:
محمد ابوالحسن قادری رضوی غفرلہ
خادم جامعہ امجدیہ گھوسی مئو
17مئی 2021ء


بہار شریعت مکمل گھر بیٹھے رعایتی ہدیہ میں حاصل کرنے کیلئے نیچے کِلک کریں۔

اشرفیہ کے مفتی نظام الدین سے بڑے بڑے علماء کیوں ناراض ہیں! تفصیل کیلئے نیچے کِلک کیجیے۔

Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

اشرفیہ مبارکپور کےمفتی نظام الدین نے کھُلے کفر (صریح کفر)  کو ایمان کی نشانی کہا۔ معاذاللہ! تفصیل جاننے کیلئے کلک کریں۔

Don`t copy text!