Mazmoon (15)

مضمون  نمبر (۱۵)
ایک تحریر اڑیسہ سے ملاحظہ فرمائیں
 مبسملا و حامدا ومصلیا و مسلما
محدث کبیر اور مجاہد ملت

حضرت محدث کبیر، علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، نائب قاضی القضاہ کی ذات گوناگوں خوبیوں کی حامل ہے۔ فن تفسیر میں مہارت، حدیث و رجال میں دسترس، فقہ و اصول میں رسوخ، بحث و مناظرہ میں کمال اور دقیق مسائل کی تنقیح، اقوال فقہاء و روایات محدثین میں تطبیق اور دلائل میں ترجیح دینا اور محاکمہ فرمانا آپ کی امتیازی شان ہے۔ اس سے بڑھ کر چودہ سو سالہ اسلامی اقدار و روایات کے آپ امین ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس علمی جاہ و جلال کے باوجود آپ بزرگوں کی بارگاہ کے اس قدر باادب اور وفاکیش واقع ہوے ہیں کہ اکابر کے خلاف ایک حرف سننا بھی گوارہ نہیں اور مسلک اعلیٰ حضرت سے سرِمو انحراف بھی اپنے جذبہ شعاری کے خلاف گردانتے ہیں۔
تعلیم کے ایام میں خوان حافظ ملت سے خوشہ چینی کرتے، تعطیل و فرصت کے دنوں میں مفتی اعظم کے بحرِ افتاء وتقوی سے موتی چنتے، علم و فضل سے لیس ہونے کے بعد باطل کی سرکوبی کے لیے سالار کارواں مجاہد ملت کے لشکر کی کمان سنبھالتے۔ آپ صدر الشریعہ کے علمی جانشین ہیں۔ اس پر مستزاد حافظ ملت، مجاہد ملت اور مفتی اعظم علیھم الرحمہ کی چشمان التفات نے مولوی ضیاء المصطفیٰ کو علامہ عصر، محدث کبیر اور ممتاز الفقہاء بنا دیا۔
جناب الحاج مدثر حسین حبیبی نے خود فقیر سے بیان کیا کہ کولکاتہ کی ایک بس میں حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے ساتھ ایک سیٹ میں بیٹھے مدثر صاحب سفر کر رہے تھے۔ کسی جگہ سے اسی بس میں محدث کبیر بھی سوار ہوئے۔ بھیڑ کی وجہ سے سیٹ نہیں ملی، وہیں دروازے پر کھڑے سفر کر نے لگے۔ ان پر مجاہد ملت کی جوں ہی نظر پڑی، آپ سیٹ سے کھڑے ہوگئے اور علامہ صاحب کو بلایا۔ پاس آئے تو آپ نے مدثر صاحب کو اٹھا کر ان کی جگہ علامہ صاحب کو نہیں بیٹھایا بلکہ خود اپنی سیٹ علامہ صاحب کو مجاہد ملت نے پیش فرمائی۔ اب مدثر صاحب بھی اٹھ گئے۔ جب تک علامہ صاحب سیٹ پر بیٹھ نہیں گئے حضرت علیہ الرحمہ کھڑے ہی رہے۔
غور کرتا ہوں تو عقل و شعور کے کئی بند دروازے وا ہونے لگتے ہیں۔ مدثر صاحب سرکار مجاہد ملت کے باوفا مرید اور اس سفر میں بطور خادم ہم رکاب تھے۔ خادم کو اٹھا کر اس کی جگہ کسی معظم ہستی کو بیٹھانا عام سی بات ہے مگر مخدوم زادہ کے لیے خود سروقد کھڑا ہو جانا پھر خود اٹھ کرانہیں اپنی جگہ بٹھالنا مجاہد ملت ہی کا کارنامہ ہے۔
ایک نکتہ اور سمجھ میں آتا ہے کہ یہ صرف ایک استاد زادے ہی کی تعظیم نہ تھی بلکہ اقلیم ولایت کے تاجدار کی نگاہ بصیرت علامہ ضیاء میں کچھ اور ہی دیکھ رہی تھی۔ ایک مدثر حبیبی نہیں بلکہ تمام وابستگان سلسلہ کے لیے عملی مثال تھی کہ تم میرے ضیاء کی تعظیم وتکریم کرتے رہنا اور اس کے فتاویٰ و فیصلے پر عمل کرکے حیات کی تاریک راہوں کو ضیا بار بنائے رکھنا۔
کل کے مسئلہ کو لیجیے۔ گھوسی میں ٢٩ویں رمضان ١٤٤٢ھ کی رویت ہلال کو کیسے ہتھکنڈہ بنایا گیا۔ اختلاف کرنے والے نے مبارک پور میں رہ کر جان لیا کہ گھوسی میں مطلع صاف تھا، اس لیے چار افراد کی گواہی معتبر نہیں۔ میں نے مولانا فیضان المصطفیٰ اور مفتی عثمان صاحب سے رابطہ کیا اور وہاں موجود کئی علماء کی تحریر پڑھی کہ اس وقت گھوسی کا مطلع ابرآلود تھا، صاف نہیں تھا۔ حضرت محدث کبیر کی دعوت پر کلیات البنات میں طیبۃ العلماء گھوسی کے سیکڑوں علماء موجود تھے۔ سب کی موجودگی میں علامہ صاحب قبلہ نے فیصلہ کیا۔ سب نے توثیق کی اور اس فیصلہ کی تائید اکابر علماء ہند نے کی۔ بالخصوص شہزادہ تاج الشریعہ، قاضی القضاہ نے تحریر اور اپنی آواز میں صوتی پیغام کے ذریعہ علامہ صاحب کے فیصلے کی تائید و توثیق فرمائی۔
صرف یہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ تمام اختلافی مسائل میں محدث کبیر، تاج الشریعہ کے ساتھ ہیں اور ہم غلامان مجاہد ملت اسی موقف کی پرزور تایید وحمایت کرتے ہیں ۔
یہ تحریر کسی نئے فتنے کو ہوا دینے کے لیے نہیں بلکہ اختلاف و انتشار کے پرفتن دور میں متلاشیان حق کو راہ حق و صداقت دکھانے کے لیے اور جادہ صدق و صفا پر گامزن رکھنے کے لیے معرض وجود میں آئی ہے۔
ع زمانہ مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک
ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے

مخلص:
محمد حنیف حبیبی مصباحی
خادم الحدیث دارالعلوم مجاہد ملت، اڑیسہ
15مئی2021ء


بہار شریعت مکمل گھر بیٹھے رعایتی ہدیہ میں حاصل کرنے کیلئے نیچے کِلک کریں۔

اشرفیہ کے مفتی نظام الدین سے بڑے بڑے علماء کیوں ناراض ہیں! تفصیل کیلئے نیچے کِلک کیجیے۔

Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

اشرفیہ مبارکپور کےمفتی نظام الدین نے کھُلے کفر (صریح کفر)  کو ایمان کی نشانی کہا۔ معاذاللہ! تفصیل جاننے کیلئے کلک کریں۔

Don`t copy text!