Mufti Nizamuddin Jawab Den (2)

مضمون  نمبر (۲)
بابِ رویتِ ہلال میں قواعدِ علمِ فلکیات معتبر یا غیر معتبر؟؟؟
؟
(فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں)
شریعت مطہرہ میں اہل ہیئت کی بات کا کچھ اعتبار نہیں، اگرچہ عادل ہوں!!!
۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ آپ کے استاذ ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے اعلیٰ حضرت سے کوئی کتاب تو نہیں پڑھی مگر سارا علم آپ کی بارگاہ سے ملا۔‘‘ اسی صدرالشریعہ نے اپنا سارا علم ہند وپاک کی دو عظیم شخصییات کو پلا دیا، ایک حضور حافظ ملت اور دوسرے محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد علیہما الرحمہ۔ صدرالشریعہ کے علمی جانشین حافظ ملت صدرالشریعہ کے جانشین محدث کبیر کو لے کر صدرالشریعہ کی مزار پاک پر حاضر ہوکر بارگاہِ صدرالشریعہ میں عرض کرتے ہیں: ’’حضور! آپ نے جو کچھ مجھے عطا فرمایا، میں نے وہ سب کچھ مولوی ضیاء المصطفیٰ کو دے دیا۔‘‘
حضور محدث کبیر مدظلہ العالی ارشاد فرماتے ہیں: ایک بار میں نے بارگاہِ سیدنا مفتی اعظم رضی اللہ عنہ میں حاضر ہو کر عرض کیا: حضور! آپ مجھے سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا علمی تبرک عطا فرما دیں۔ تو مفتی اعظم رضی اللہ عنہ نے محدث کبیرمدظلہ العالی کی یہ خواہش پوری کی ۔
اسی محدث کبیر نے اس سال رمضان المبارک کی ۲۹؍ تاریخ کو عادل اور ثقہ گواہان کی گواہی کو قبول کرتے ہوئے ہلالِ شوال المکرم ۱۴۴۲؁ھ کی رویت کا فیصلہ صادر فرمایا۔ یہ فیصلہ آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک ہنگامۂ بدتمیزی بر پا کیا گیا۔ کسی نے مسائل شرعیہ کی مستند کتاب فتاویٰ رضویہ اور بہار شریعت کی روشنی میں اس فیصلہ کو غلط قرار دیا، تو کسی نے علمِ فلکیات اور علمِ ہیئت کے قواعد کی روشنی میں اس فیصلہ کو غلط قرار دیا۔ لیکن جب اہل علم نے معترضین کے حوالہ جات کومذکورہ کتابوں کی روشنی میں واضح کیا تو مسئلہ سب پر آشکار ہوگیا ۔
حضور محدث کبیر مدظلہ العالی کے شوال کی رویت ہلال کے فیصلہ پر اعتراض کرنے والے اگر دیانت داری سے کام لیتے تو امت میں نہ یہ اختلاف ہوتا اور نہ یہ خلفشار۔ماہرین فلکیات نے قواعد ہیئت اور تشریح الافلاک کی روشنی میں سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا مشہور زمانہ حاشیہ ’’جد الممتار علی ردالمحتار‘‘ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جب تک بُعد نیرین ۱۰؍ درجہ تک نہ ہو رویت ہلال ممکن نہیں، اور اسی قاعدۂ فلکیات کی وجہ سے سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے بدایوں میں ۳؍ یا ۵؍ لوگوں کی گواہی ہلالِ شوال کی رویت کی رد فرمادی کہ قواعد ہیئت کی رو سے آج رویت ہلال ناممکن ہے، کیوںکہ رویت ہلال کے لیے شمس و قمر کے درمیان کم از کم دس درجہ دوری ضروری ہے۔
جب ہم نے جد الممتار اور فتاویٰ رضویہ میں شائع شدہ رویت ہلال کے رسالوں کا مطالعہ کیا تو یہ واضح ہوگیا کہ یہاں بھی کس چالاکی سے مطلب کی عبارت کو لیا گیا اور جس سے مسئلہ کی پوری وضاحت تھی اس کو چھوڑ دیا گیا۔
میں پہلے ’’جد الممتار‘‘ کی عبارت کی وضاحت کرتا ہوں، پھر اسی جد الممتار اور فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں یہ ثابت کروںگا کہ علم فلکیات کے قواعد کی روشنی میں بھی حضور محدث کبیر مدظلہ العالی کا فیصلہ دربارِ رویتِ ہلالِ شوال ۱۴۴۲؁ھ بالکل حق اور درست ہے۔
سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ جد الممتار میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’الامر فیہ ان ہنا بابین: باب قواعد رویۃ الہلال، وباب سیر النیرین وطلوعہما وغروبہما ومنازل القمر، الاول: لاعبرۃ بہ ، والثانی: یقینی لا شک‘‘
(کتاب الصوم:ج:۳؍ص:۲۱۶)

ترجمہ:۔ معاملہ یہ ہے کہ یہاں دو باب ہیں: (۱) باب قواعد رویت ہلال (۲) سیر شمس وقمر، ان کے طلوع وغروب اور منازل قمر کا باب، اول کا تو کوئی اعتبار نہیں، اور ثانی بلاشبہ یقینی ہے۔
پھر اسی بابِ ثانی میں آگے ارشاد فرماتے ہیں:
’’فان قالت الحساب العلماء العدول بعدم امکان الرویۃ علی الاول وشہدت البینۃ العادلۃ بالرویۃ قبلت‘‘ (مرجع السابق)
ترجمہ:۔ تو اگر اہل حساب علمائے عادل باب اول کی بنیاد پر یہ کہیں کہ رویت ممکن نہیں اور گواہ عادل رویت کی شہادت دے تو شہادت قبول کی جائے گی۔
اعلیٰ حضرت نے اہل حساب کے قول کے معتبر ہونے کے لیے قید لگائی ہے کہ وہ عالم ہوں اور اس کے ساتھ عادل بھی ہوں۔ یہ بات سب پر واضح ہے کہ Observatory میں کام کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں، مسلم ہیں کہ غیر مسلم، اگر مسلم ہیں تو عالم ہیں کہ نہیں، اگر عالم ہیں تو عادل ہیں کہ نہیں، یہ تو معترض صاحب ہی بتائیں گے۔
پھر آگے سیدنا اعلیٰ حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
’’وان بنوہ علی الثانی کما فی المسئلۃ الثانیۃ فان من المقطوع بہ الغیر المختلف ان الہلال لا یمکن ان یری عادۃ ما لم یبعد عن الشمس عشر درج، بل اکثر‘‘ (مرجع السابق)
ترجمہ:۔ اور اگر بابِ ثانی کی بنیاد پر کہیں، جیساکہ مسئلہ دوم میں ہے(والشمس والقمر بحسبان) (والشمس تجری لمستقر لہا ذلک تقدیر العزیز العلیم) تو یہ قطعی امر ہے، جس کے خلاف کبھی نہیں ہوتا کیوں کہ عادۃً رویت ہلال ممکن نہیں جب تک کہ چاند سورج سے دس درجہ بلکہ زیادہ دوری پر نہ ہو۔
یہی عبارت معترضین کے ہاتھ آئی اور انھوں نے دعویٰ کیا کہ اعلیٰ حضرت نے بدایوں کی شہادت رویت ہلال کے بارے میں اسی قاعدۂ علم افلاک کی وجہ سے قبول نہ کیا بلکہ رد کردیا جب کہ اسی جد الممتار کے اگلے ہی صفحہ پر یہ ارشاد فرمایا کہ بدایوں میں اس سال ۲۸؍ رمضان المبارک کو چاند کی رویت کی گواہی گزری۔ اگر ۲۹؍ رمضان کو وہ گواہی گزرتی تو کیا سرکار اعلیٰ حضرت اس کو بھی رد فرماتے؟ ہر گز نہیں۔
جد الممتار ہی میں ’’مطلب فی اختلاف المطالع‘‘ میں اعلیٰ حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
’’فاذا کان فی الموضع الشرقی علی فصل ثمان درجۃ الا دقیقۃ لم تمکن الرویۃ ویکون فی الموضع الغربی علی فصل ثمان درجۃ مع زیادۃ دقیقۃ فامکنت‘‘(جد الممتار ج:۳؍ص:۲۳۸،۲۳۷۔ ط:دار اہل السنۃ کراچی)
ترجمہ:۔ چاند جب مشرق کی طرف آٹھ درجہ سے کم فاصلہ پر ہو تو رویت ممکن نہیں اور جب جانب مغرب ہو اور آٹھ درجہ اور ایک دقیقہ سے زیادہ فاصلہ ہو تو رویت ممکن ہے۔
یہاں پر اعلیٰ حضرت صاف تحریر فرمارہے ہیں کہ اگر جانب مغرب آٹھ درجہ سے زیادہ چاند کا سورج سے فاصلہ ہوتو رویت ممکن ہے اور معترضین کے نزدیک ۲۹؍رمضان ۱۴۴۲؁ھ کو گھوسی میں چاند اور سورج کے درمیان آٹھ درجہ ۱۳؍ دقیقہ ۱۲؍ ثانیہ فاصلہ تھاتو کیوںکر رویت ناممکن ہوئی۔
جد الممتار کی جن عبارتوں سے معترضین نے گھوسی کی ۲۹؍رمضان المبارک کی رویت کی تردید کی، جب اس کتاب کے ان ابحاث کو دیکھا گیا تو سمجھ میں آگیا کہ کس طرح جد الممتار کی عبارتوں سے غلط مفہوم نکال کر علمائے اہل سنت اور عوامِ اہل سنت کو فتنہ میں مبتلا کیا گیا، جب کہ جد الممتار کے ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اہل حساب کے لیے اعلیٰ حضرت نے عالم ہونے کے ساتھ عادل ہونے کی بھی قید لگائی ہے، ان سب صفات سے متصف اہل حساب بھی اگر ہلال کے عدمِ رویت کا قول کریں اور رویت پر شہادت شرعی گواہ عادل سے گزر جائے تو شہادت کو قبول کیا جائے گا، نہ کہ اہل حساب کے عدمِ رویت کے قول کو۔ کیوں کہ رویت ہلال کے باب میں اہل حساب کے قول کا کوئی اعتبار نہیں، جس کی تفصیل ان شاء اللہ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کے عظیم رسالہ ’’البدور الاجلۃ فی امور الاہلۃ‘‘ اور اس کی شرح میں ملاحظہ فرمائیں گے۔
پھر خود سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ اسی جد الممتار کے اسی کتاب الصوم کی بحث ’’مطلب فی اختلاف المطالع‘‘ میں واضح الفاظ میں ارشاد فرمارہے ہیں کہ اگر چاند جانب مغرب سورج سے آٹھ درجہ سے زائد دوری پر ہو تو رویت ممکن ہے۔
یہ تو جد الممتار کی بحث رہی، ذرا فتاویٰ رضویہ شریف کی بحثوں کو بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ سیدنا اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
’’علم ہیئت کی رو سے ۴؍ مہینے پے در پے ۳۰؍ کے ہوسکتے ہیں اور ۳؍ انتیس کے، شریعت مطہرہ میں ہیئت والوں کی اس تحدید استقرائی کا بھی اعتبار نہیں، ثبوتِ شرعی سے اگر چار مہینے لگا تار ۲۹؍ کے ہوں تو مانے جائیں گے۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ، کتاب الصوم، باب رویۃ الہلال، ج:۸؍ص:۲۶۰)
اور سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ ’’البدور الاجلۃ فی امور الاہلۃ مع شرح الادلۃ للبدور الاجلۃ مع حاشیۃ رفع العلۃ عن نور الادلۃ‘‘ کے فصل دوم میں ارشاد فرماتے ہیں: (یہ تینوں رسالے سیدنا اعلیٰ حضرت کے ہیں) ’’فصل دوم ان امور میں جن کا دربارۂ تحقیق ہلال میں کچھ اعتبار نہیں‘‘ بیس قمر پر مشتمل۔
(م) قمر۱، ہلال نمبر۱۶: اہل ہیئت کی بات کا کچھ اعتبار نہیں اگر چہ عادل ہوں، اگرچہ کثیر ہوں، نہ ہی خود اس پر عمل جائز۔
(ش) قمر۱؍۱۶: اہل ہیئت وہ لوگ جو آسمانوں کے حال اور ستارو ںکی چال سے بحث کرتے ہیں، وہ اپنے حساب سے بتاتے ہیں کہ فلاں دن رویت ہوگی، فلاں مہینہ ۲۹؍ کا ہوگا، فلاں تیس کا۔ پھر ان کی بات کہ ایک حساب ہے ٹھیک بھی پڑتی ہے، پر صحیح مذہب میں اس کا کچھ اعتبار نہیں، اگرچہ وہ ثقہ عادل ہوں، اگرچہ ان کی جماعت کثیر یک زبان ایک ہی بات پر اتفاق کرے۔ مثلاً ۲۹؍ شعبان کو کہیں: آج ضرور رویت ہوگی، کل یکم رمضان ہے، شام کو ابر ہوگیا رویت کی خبر معتبر نہ آئی، ہم ہرگز رمضان قرار نہ دیں گے بلکہ وہی یوم الشک ٹھہرے گا، یا وہ کہیں: آج رویت نہیں ہوسکتی، کل یقینا ۳۰؍ شعبان ہے، پھر آج ہی رویت پر معتبر گواہی گزری فوراً قبول کرلیں گے اور کچھ خیال نہ کریں گے کہ بر بنائے ہیئت تو آج رویت ناممکن تھی۔
اور اس رسالہ کے اسی قمر کے حاشیہ میں اعلیٰ حضرت ارشاد فرماتے ہیں: اہل تنجیم میں قرار پایا ہے کہ جب تک چاند آٹھ درجے آفتاب سے دور نہیں ہوتا ہرگز نظر نہیں آتا، صرح بہ الفاضل الرومی اور جب بارہ درجے جدا ہوتا ہے ضرور نظر آتا ہے، نص علیہ علامۃ الشریف ، پھر وہ ۲۹؍ تاریخ مغرب کی تقویم یعنی اس وقت فلک بروج سے شمس و قمر کے مواضع نکال کر فصل دیکھتے ہیں، اگر آٹھ درجہ سے کم پایا حکم لگادیا کہ آج رویت ہرگز نہ ہوگی اور ۱۲؍ یا ۱۲؍ سے زائد دیکھا تو جزم کردیا کہ ضرور ہوگی، اور اس کے مابین معلوم ہوا تو رویت ہلال مشکوک رکھتے ہیں، فقیر نے بارہا دیکھا کہ ۲۹؍ کی مغرب کو قمر ۱۲؍ درجے سے بہت زیادہ دور ہے پھر بھی انھوں نے کل کی رویت رکھی۔ خیر یہاں یہ کہنا ہے کہ حکمائے یونان ان کے قواعد وضع کر چکے خود بھی ان پر مطمئن نہیں۔ تصریح کرتے ہیں کہ احوالِ قمر کا آج تک انضباط نہ ہوا، پھر ایسے شاک وشاک فی انہ شاک بات کا کیا اعتبار۔
مزید ارشاد فرماتے ہیں: ہم بحمد اللہ تعالیٰ ولہ المنۃ اپنے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی امی امت ہیں، ہمیں کسی کے حساب کتاب سے کیا کام، جب تک رویت ثابت نہ ہوگی نہ کسی کا حساب سنیں، نہ تحریر مانیں، نہ قرائن دیکھیں، نہ اندازہ جانیں۔
اور قمر۱۷؍ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اخیر میں دو ایک رات ضرور بیٹھتا ہے پر شریعت میں اس پر مدارِ حکم نہیں۔‘‘
(ش) قمر ۱۷: ’’مہینہ ۲۹؍ کا ہوتا ہے تو ایک رات بیٹھتا ہے، تیس کا ہو تو دو رات، پھر آج صبح طلوعِ شمس سے پہلے چاند جانبِ شرق نظر آیا تھا اور آج شام کی نسبت شہادت شرعی رویت پر گزری، بلاشبہ قبول کی جائے گی اور یہ لحاظ نہ ہوگا کہ آج صبح تک تو چاند موجود تھا بن ڈوبے کیوںکر ہلال ہوگیا۔‘‘
اس کی شرح میں سرکار اعلیٰ حضرت ارشاد فرماتے ہیں: ’’چاند سورج دونوں کی اپنی چال مغرب سے مشرق کو ہے، اور حرکت یومیہ جس کے بسبب طلوع وغروب روزانہ ہوتا ہے مشرق سے مغرب کو تو چاند صبح کے وقت جب ہی نظر آئے گاکہ سورج کے پیچھے ہو، یعنی جانب مغرب ہٹا ہوا ہو کہ اگر جانب مشرق بڑھا ہو تو آفتاب اس سے پہلے طلوع کرے گا، صبح کے وقت چاند آفتاب سے بھی زیادہ زیر زمین اترا ہوگا نظر کیوںکر آئے، اور جب پیچھے ہو تو اُفق مشرقی پر سورج سےچمک آئے گا، آفتاب ہنوز زیر زمین ہوگا تو نظر آسکتا ہے بشرطیکہ ۸؍ درجے سے کم نہ ہو، ورنہ اتنے قرب میں سورج کی شعاعیں اسے چھپالیں گی، نظر کام نہ کر سکے گی۔ اسی طرح شام کو مغرب میں جب ہی نظر آتا ہے کہ سورج کے آگے یعنی جانب مشرق بڑھا ہو کہ اگر جانب مغرب ہٹا ہوگا تو سورج سے پہلے ڈوب جائے گا اور جب آگے ہے تو افق غربی پر بعد غروب آفتاب باقی ہے تو نظر آنا ممکن بشرطیکہ ۸؍ درجے سے کم فصل نہ ہو۔ جب یہ بات سمجھ لی تو اگر آج صبح کو نظر بھی آئے پھر شام کو ہلال بھی ہو تو لازم ہے کہ صبح کو آٹھ درجے پیچھے تھاشام کو لا اقل ۸؍ درجے آگے ہوگیا ، چار پہر میں سولہ درجے طے کر گیا، حالاںکہ وہ کبھی آٹھ پہر کامل میں بھی اتنا نہیں چلتا، اس وجہ سے ہیئت والے اجتماعِ رویت صبح و شام کو ناممکن کہتے ہیں مگر جب ثبوتِ شرعی ہو تو انکار کا کیا یارا۔ ان اللہ علی کل شیء قدیر۔
(فتاویٰ رضویہ:ج:۸؍ص:۳۳۱؍ تا ۳۳۳، امام احمد رضا اکیڈمی)
فتاویٰ رضوی شریف میں رویت ہلال سے متعلق جو رسائل موجود ومطبوع ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رویت ہلال کے باب میں اہل تنجیم کے اقوال کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں، اگرچہ سب عادل ہونے کے ساتھ یک زبان ایک ہی بات پر اتفاق کریں اور یہ بھی واضح ہوا کہ رویت ہلال اس وقت ممکن ہے جب چاند سورج سے ۸؍ درجہ سے زائد فاصلہ پر ہو اور معترضین نے اس بات کا خود اعتراف کیا کہ اس دن گھوسی میں نیرین میں ۸؍ درجہ ۱۳؍ دقیقہ ۱۲؍ ثانیہ کا فاصلہ تھا۔
معترض نے اپنے ایک پوسٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اعلیٰ حضرت نے ’’المینک بک‘‘ (جو گرینچ رصدگاہ سے تیار ہوکر شائع ہوتی ہے، جس میں ستارو ںکی چال لکھی ہوتی ہے) کا اعتبار کیا ہے اور اس کے بارے میں فرمایا کہ ’’المینک ایک اعلیٰ ستارہ بیں ہے‘‘ اور اس پر بھروسہ بھی کیا ہے۔
جب معترض کے اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے میں نے فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ معترض نے یہاں بھی صریح خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے عوامِ اہل سنت کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہا کہ فتنہ عام سے عام تر ہوجائے اور سب کی سمجھ سے بالا تر ہوجائے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معترض نے گھوسی کے بُعد نیرین کی معلومات حاصل کرنے کے لیے کس پر بھروسہ کیا ہے۔
میں معترض کے ازالۂ فریب کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کی ان عبارات اور اقتباسات کو آپ کے مطالعہ کے لیے پیش کروں تاکہ آپ حضرات خود فیصلہ کر سکیں کہ کیا ۲۹؍ رمضان المبارک کو ہلالِ شوال کی رویت پر عادل شاہدوں کی گواہی کو قبول کر کے حضور محدث کبیر مد ظلہ العالی کا عید کر نے کا فیصلہ صحیح تھا یا معترضین کا ان کے فیصلہ پر اعتراض کرنا درست تھا۔
سیدنا اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۳۰؍ میں ’’تشریح افلاک وعلم توقیت وتقویم‘‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور، میں شیخ علائوالدین صاحب میرٹھی کے علم فلکیات اور اس کے قواعد اور علم ہیئت اور المینک بک سے متعلق مختلف سوالوں کے جواب میں تحریر فرمایا:
’’المینک ایک اعلیٰ ستارہ بیں ہے، اس سے ملاحظہ کیجیے جس وقت اس نے دو کوکبوں کا قران لکھا ہے، اگر ان میں ایک قمر ہے تو اس کی تقویم وقت قران کے لیے تعدیل ما بین السطرین سے لیجیے اور دوسرے کے اس قاعدہ سے ملاحظہ ہو، دونوں میں کتنا فرق آتا ہے۔‘‘
پھر آگے تحریر فرماتے ہیں:’’ایک قول فیصل عرض کروں دو حال سے خالی نہیں، ستارہ بیں سے جو تقویم نظر آئی تقویم محسوب بقاعدۂ مولوی صاحب سے مطابق ہوگی یا مخالف، اگر مخالف ہو جب تو صحت قاعدہ کا ثبوت ہی نہ ہوااور مطابق ہو تو اور الٹی غلطی، قاعدہ کا ثبوت ہوگیا کہ انکسار کدھر جائے گا اور اختلاف منظر کدھر جائے گا، تقویم مرئی کبھی تقویم حقیقی کے مطابق نہیں ہوتی حتی کہ اس وقت بھی کہ کوکب دائرۂ نصف النہار پر ہو مگر صرف اس حالت نادرہ میں کہ عین سمت الراس پر ہو۔‘‘
مزید فرماتے ہیں: ’’یہ فرمان اس بنا پر ہے کہ شاید ستارہ بیں قواعد رسالہ کی غلطی ثابت کرے تو کس سے اطمینان فرمائیں، سو اس قاعدہ کے جو میں نے جناب سے گزارش کیا اور معمول ہیئت جدیدہ ہیکہ تقریب سے قریب ہوتا ہے مگر تحقیق سے دقیقہ تک تفاوت لاتا ہے، قواعد کہ فقیر نے استنباط کیے مبرہن ببراہین ہندسیہ ہیں، اگر ان کے خلاف بتائے تو یقینا آلہ غلط ہے نہ کہ براہین۔‘‘
اور فتاویٰ رضویہ کے اسی جلد کے اسی رسالہ میں سرکارا علیٰ حضرت سے ایک اور سوال شیخ علائو الدین صاحب میرٹھی نے کیا، میں من وعن اس سوال و جواب کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
مسئلہ: مطالع استوائیہ کواکب جو المینک میں مرقوم ہیں وہ صحیح اور حقیقی مطالع ہیں یا نہیں اور باعتبار مرکز زمین استخراج کیے گئے ہیں یا نہیں؟
الجواب: المینک میں جو مطالع شمس و قمر و ہر کوکب کے لیے ہیں سب بلحاظِ مرکز زمین حقیقی اور بقدر کافی تحقیق و صحیح ہیں، مگر ان سے طوالع حاصل کرنا شمس میں ہمیشہ تقویم سے مطابقت لائے گا اور دیگر کواکب میں نادر، اکثر اختلاف دے گا، جس کی مقدار نصف درجہ سے بھی زائد ہوگی، وجہ یہ ہے کہ یہ مطالع حقیقۃً مطالع اجزاء منطقۃ البروج ہیں کہ انھیں کے میل و بعد عن الاعتدال الاقرب سے اخذ کیے جاتے ہیں، شمس دائما ملازم منطقہ ہے تو اس کی تقویم ہمیشہ نفس منطقہ پر ہوتی ہے اور وہی طوالع مطالع ہیں، بخلاف دیگر کواکب کے کہ اپنے تمام دورہ میں صرف دو بار منطقہ پر آتے ہیں، جب کہ اپنے راس و ذنب پر ہوں یا متحیرات کے باعث دو چار بار اور اسی وقت تقویسی مطالع ان کی تقویم ٹھیک بتائے گی یا اس وقت کہ کوکب مارہ بالاقطاب الاربعہ پر ہو کہ اب میلیہ وعریضہ متحد ہوجائیںگے باقی اوقات اختلاف دے گی۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج:۳۰؍ص:۱۱۸؍تا ۱۲۱، م رضا فائونڈیشن لاہور)
سرکار اعلیٰ حضرت کے فتاویٰ تشریح الافلاک سے بھی یہ بات خوب واضح ہوتی ہے کہ سیدنا اعلیٰ حضرت نے المینک بک (جو گرینچ رصدگاہ سے شائع ہوتی ہے) کے بارے میں صرف یہی کہا کہ المینک ایک اعلیٰ ستارہ بیں ہے، اس سے یہ لازم کہاں آتا ہے کہ آپ نے اس پر بھروسہ بھی کیا، زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوا کہ سورج کے بارے میں اس کی معلومات صحیح و درست ہے اور باقی کواکب کے طوالع کی معلومات قابل بھروسہ نہیں، بلکہ اکثر ہی ان کے بارے میں طوالع کی معلومات غلط ہیں، اور خود سرکار اعلیٰ حضرت نے ’’البدور الاجلۃ فی امور الاہلۃ‘‘ کے حاشیہ میں صاف لفظوں میں ارشاد فرمادیا کہ ’’حکمائے یونان ان کے قواعد وضع کرچکے خود بھی ان پر مطمئن نہیں، تصریح کرتے ہیں کہ احوال قمر کا آج تک انضباط نہ ہوا‘‘ پھر کیوں کر ’’المینک بک‘‘ قابل بھروسہ ہوگی۔
ان تمام شواہد اور اقتباسات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بابِ رویت ہلال میں نہ قواعد علم فلکیات کا اعتبار ، نہ اصولِ ہیئت قابل التفات، بلکہ صرف اور صرف اصولِ شرع متین بالیقین قابل یقین ولائق اتباع۔
اور اگر علم فلکیات کا اعتبار رویت ہلال کے باب میں ہے تو پھر چاند دیکھنے کی مشقت کیوں، پھر تو آج ہی وہ صدیوں کی عید کی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے، کیوں کہ ان کے نزدیک گواہیاں ہی ناقابل قبول اور بے کار ہیں جب کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہی ارشاد فرمادیا ’’صوموا لرؤیتہ وافطروا لرویتہ فان اغمی علیکم فاقدروا لہ ثلاثین‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام، باب وجوب صوم رمضان لرویۃ الہلال) کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو اگر تم سے پوشیدہ رہ گیا تو تیس مکمل کرو۔
اس حدیث میں ’’اغمی‘‘ کا لفظ سرکار نے ذکر کیا ما طلع کا لفظ نہیں جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ چاند طلوع تو ہوامگرکسی وجہ سے تم سے چھپا رہ گیا تو تیس مکمل کرو۔
اور معترض کا یہ کہنا کہ ’’میں تو اپنے امام کو سچا مانتا ہوں، آپ امام کو سچا مانتے ہیں یا گواہ کو‘‘تو میں صاف لفظوں میں یہ کہہ دوں کہ اپنے امام کو ماننا یہ نہیں ہے کہ امام کی کتابوں سے ادھوری عبارت پیش کرکے اپنی خواہشات نفسانی کی اطاعت کی جائے اور اپنے قلبی عناد کو پروان چڑھایا جائے بلکہ امام کو سچا ماننا یہ ہے کہ امام کی پوری بات پوری امانتداری اور دیانتداری کے ساتھ پیش کر کے عوام اہل سنت کی صحیح رہنمائی کی جائے ۔ معترض صاحب کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ’’أتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض‘‘کی صفت سے متصف نہ ہو کر اپنی دینی ذمہ داریوں کو پوری دیانتداری سے ادا کریں ۔الحمد للہ! ہم امام اہل سنت مجدد دین و ملت اعلی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کی نسبت غلامی پر فخر کرتے ہیں اور نسلا بعد نسل ان کی بارگاہ کے جاروب کش ہیں ۔
اب اخیر میں معترضین حضرات کی بارگاہ میں چند معروضات پیش ہیں ۔امید کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے۔
(۱) ۲۹؍ رمضان المبارک ۱۴۴۲؁ھ کو گھوسی کے خط استواء سے میل شمس جانب شمال تھا یا جانب جنوب اور کتنے درجہ تھا؟
(۲) اور اسی دن خط استواء سے بُعد قمر جانب شمال تھا یا جانب جنوب اور کتنے درجہ؟
(۳) کسی شہر کا عرض البلد اور طول البلد نکالنے کا کیا قاعدہ ہے؟
(۴) کیا کسی ویب سائٹ پر موجود کسی شہر کے بعد النیرین کے حساب کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟
(۵) سرکار اعلیٰ حضرت کے ذکر کردہ قیود ’’ان قالت الحساب العلماء العدول‘‘ کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟
(۶) خود سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے بدایوں کی شہادت کو رد کرنے کی جو وجہیں جد الممتار میں لکھی ہیں اس کے طریق پنجم میں ارشاد فرماتے ہیں: ہمارا یہ موجودہ شوال ان شاء اللہ ۳۰؍ دن کا ہوگا، روزِ جمعہ اگر آسمان صاف رہا تو سب دیکھ لیں گے کہ چاند نہیں، تو ان کے حساب سے لازم آئے گا کہ شوال ۳۱؍ دن کا ہو اور یہ محال ہے۔
اعلیٰ حضرت کی تحریر کی روشنی میں کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ۲۹؍ کی شہادت ہوتی تب بھی اعلیٰ حضرت یہ طریق پنجم لکھتےہیں؟

از:(مفتی)  ابو یوسف محمد قادری ازہری

خادم طیبۃ العلماء جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
۱۶؍ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ/۲۸؍مئی ۲۰۲۱ء


محترم قارئین! ہم آپ کے شکر گذار ہیں کہ آپ ہماری ویب سائٹ پر تشریف لائے اور ہمیں خدمت کا موقع دیا۔ ابھی اس موضوع پر اور بھی کئی اہم مضامین پیش کیے جائیں گے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو اس کی خبر دی جائے تو آپ ہمارا نمبر اپنے فون میں محفوظ (Save) کرکے اس پرواٹساپ کے ذریعے سلام لکھ کر بھیج دیں۔

(+91) 960-70-23653


بہار شریعت مکمل گھر بیٹھے رعایتی ہدیہ میں حاصل کرنے کیلئے نیچے کِلک کریں۔

اشرفیہ کے مفتی نظام الدین سے بڑے بڑے علماء کیوں ناراض ہیں! تفصیل کیلئے نیچے کِلک کیجیے۔

Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

اشرفیہ مبارکپور کےمفتی نظام الدین نے کھُلے کفر (صریح کفر)  کو ایمان کی نشانی کہا۔ معاذاللہ! تفصیل جاننے کیلئے کلک کریں۔

Don`t copy text!