Mufti Nizamuddin Jawab Den (5)

مضمون   نمبر (۵)
مفتی نظام الدین کا جھوٹ پکڑا گیا!

قارئین کرام! آپ حضرات کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہرسال چند موبائل سے حاصل ہونے والی خبروں کو استفاضہ مان کر مفتی نظام الدین عید کا اعلان کردیتے تھے۔ خبر دینے والوں سے نہ مطلع پوچھتے تھے نہ مقطع، نہ مجمع نہ مذہب، بس اعلان کی ہڑبڑی رہتی تھی اور مغرب بعد فوراً ان کا اعلان آجاتا تھا اور پورے ملک میں فون کرکے اپنا فیصلہ نافذ کرانے میں مشغول ہوجاتے تھے۔ اس مرتبہ بیچارے پچھڑ گئے۔ پورے ملک میں یہ مزاج بھی بنا تھا کہ سعودیہ میں جمعرات کو عید ہے تو ہندوستان میں جمعہ کو ہوگی۔ دیوبندی بھی خاموش تھے اس مرتبہ انکو بھی ہڑبڑی نہیں تھی۔ اتفاق سے کہیں سے رویت کی خبر بھی نہیں ملی اور ایک جگہ سے ملی بھی تو وہاں سے لے نہیں سکتے تھے کیونکہ اس جگہ سے ان کو “دیوبند” اور “سہارنپور” سے زیادہ نفرت ہے اور وہ جگہ ہے “گھوسی” جہاں کے قاضی علامہ ضیاء المصطفی صاحب ہیں۔ گھوسی کے کچھ علماء نے بتایا کہ پندرہ بیس سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مفتی نظام الدین نے گھوسی سے شہادت لی ہو۔ بہار، بنگال کے فون پر اعلان کردیا مگرگھوسی سے شہادت لینا گوارا نہ کیا تو پھر اس مرتبہ کیوں لیتے؟ ناک جو کٹ جاتی! انھیں لینا ہی نہیں تھا اور پھر پورے ملک کا مزاج اور دیوبندیوں کا حال بھی معلوم تھا، عجیب مخمصے میں مبتلا تھے۔ ادھر مبارکپوری عوام گالی دے رہے تھے کہ جب بغل میں چاند ہوگیا تو شہادت کیوں نہیں لاتے؟ تو گھوسی کے مطلع کو اپنی خواہش نفسانی کا مقطع بنایا اور فتویٰ رضویہ، بہار شریعت کی (ادھوری) عبارت پیش کرکے قصہ تمام کردیا کہ گھوسی کا مطلع صاف تھا، ایسی صورت میں جماعت کثیرہ کی شہادت ضروری تھی اور علامہ صاحب نے صرف چار کی شہادت پر فیصلہ کردیا اس لئے میں نے وہاں سے شہادت نہیں لی، گھوسی کا مطلع صاف تھا یا نہیں، مگر یہ صاف ہے کہ آپ کا ذہن صاف نہیں تھا۔
سوال یہ ہے کہ گھوسی کا مطلع صاف تھا یا ابر آلود اس کی تحقیق مفتی نظام الدین نے کیسے کی اور کن سے کی؟
کیا جماعت کثیرہ نے خبر دی کہ تواتر شرعی متحقق ہوگیا یا عینی شاہدین کی شہادت تھی؟ یا یوں ہی اپنے ایک دو ملازموں سے اپنے مطلب کی بات اُگلوا لی؟
بار بار کے مطالبے کے باوجود مفتی نظام الدین نے اسکی تفصیل نہیں بتائی اور نہ ہی اُن کا نام اب تک ظاہر کیا۔(کیوں؟)
ع کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے
چونکہ میں نے بھی فیض آباد میں جمعرات کو عید کی تھی اور فیض آباد میں کتاب القاضی گھوسی سے آئی تھی اس لئے مجھے تشویش ہوئی کہ میری عید صحیح ہوئی یا نہیں، کہیں ایک روزہ کی قضا تو نہیں کرنی پڑے گی؟ میں نے گھوسی کے کئی علماء سے بات چیت کی اور 29 رمضان المبارک کو گھوسی میں مطلع کیسا تھا اسکے بارے میں پوچھا تو کچھ نے کہا کہ میں نے دھیان نہیں دیا اور اکثر و بیشتر نے بتایا کہ گھوسی میں 28 اور 29 رمضان کو بارش ہوئی تھی اور بدلی تھی، مطلع صاف نہیں تھا، یہ سن کر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ عید صحیح ہوئی اور علامہ صاحب کا فیصلہ درست تھا اور عقلاً بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ محدث کبیر جیسا متبحر اور محتاط عالم دین اس نکتے سے کیسے غافل رہ سکتا ہے جبکہ یہ مسئلہ تو ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ اگر مطلع صاف ہو تو عید کے چاند کے لئے جم غفیر کی شہادت درکار ہے۔
اب یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ مفتی نظام الدین نے علامہ صاحب کے اعلان کو غیر معتبر اورغیر مؤثر بنانے کے لیے مطلع صاف ہونے کا جھوٹا پرچار کیا تھا تاکہ عوام کے عتاب سے بھی بچ جائیں اور اپنے “صاحب تقویٰ اور صاحب فتویٰ” ہونے کا بھرم بھی قائم رہے. العیاذ باللہ! اللہ تعالیٰ ایسی نفسانیت سے علماء کو دور رکھے۔
اگر علامہ صاحب کو نیچا دکھانا مقصود نہیں تھا تو کیوں چاروں طرف فون کرکے لوگوں کو شہادت لانے اور عید کر نے سے روک رہے تھے۔ آپ نے اپنا فیصلہ صادر کر دیا تھا کا فی تھا مگر نہیں، نفس پرستی کا یہ عالم کہ پوری رات لگے رہے کہ گھوسی کے باہر کہیں عید نہ ہونے پائے تا کہ یہ ظاہر ہو کہ مفتی نظام کے اعلان پر پورا ہندوستان عید کرتا ہے اور ادھر علامہ صاحب کی بے نفسی کا یہ عالم کہ پرچہ اعلان رویت پر صاف صاف لکھ دیا کہ “یہ اعلان صرف شہر گھوسی اور مضافات گھوسی کے لیے ہے” تاکہ دوسرے شہر والے ثبوت شرعی کے بعد ہی اعلان کریں۔ فتاوی رضویہ اور بہار شریعت پر عمل اس کو کہتے ہیں، درجنوں مسائل میں اعلحضرت سے بغاوت کرنے والے اگر یہ دعویٰ کریں کہ “میں اعلیٰ کے فتوے کے خلاف کیسے فیصلہ کرسکتا ہوں؟” تو یہ صرف دھوکہ اور فریب ہے۔
محقق صاحب کا حال یہ ہے کہ کئی سالوں سے باربار پوچھنے کے باوجود یہ نہیں ظاہر کرتے کہ انکی حدود قضا کہاں تک ہے؟ پوری دنیا ہے؟ پورا ملک ہے؟ پورا یوپی ہے؟ اعظم گڑھ کمشنری ہے؟ گورکھپور کمشنری ہے؟ آخر کہاں تک حدودِ قضا ہے؟ اپنے اعلان کو پورے ملک میں بغیر طرق موجبہ کے نافذ کرانے کی جدوجہد سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قاضی القضاۃ فی الھند ہیں مگر بریلی کے خوف سے لکھتے نہیں جبکہ منصب اور لقب کے اتنے بھوکے ہیں کہ بیک وقت پانچ سو منصب اور لقب مل جائے تو الحمدللہ کہہ کر سب خوشی خوشی قبول فرما لیں گے۔ ’’نا‘‘ کہنا حضرت کی عادت نہیں اور حرص و طمع کا یہ عالم کہ قارون کا خزانہ بھی نا کافی۔ ھل من مزید، ھل من مزید کا وظیفہ جاری۔
محقق صاحب کی تحریر سے میں نے پہلی بار جانا کہ محدث کبیر ان کے استاذ ہیں۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ ظفر ادیبی کے شاگرد ہیں اسی طرح پہلی بار یہ بھی جانا کہ یہ محدث کبیر سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے ہیں حتی کہ اگر گھوسی میں جماعت کثیرہ نے چاند دیکھا ہوتا تو وہاں سے کتاب القاضی بھی اپنے نام منگواتے، یا للعجب! جس سال عبیداللہ خان اشرفیہ کے اسٹیج پرعرس کی مقدس مجلس میں محدث کبیر کے پرائیویٹ خطوط پڑھ رہا تھا، عقیدت کا دم بھرنے والے انھیں مفتی صاحب کو مزے لے لے کر ہنستے ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایسا شاگرد جو اپنے استاذ و محسن کی تذلیل و توہین پرچپ رہے بلکہ مزے لے لے کر ہنسے اور مسکرائے، ذرہ برابر اس کا خون گرم نہ ہو، بلکہ جلسہ ختم ہونے کے بعد یہ کہے کہ عبیداللہ نے کم سنایا اور سنانا چاہیے تھا، وہ بے حسی، بے غیرتی رذالت وخساست میں ڈوم، چمار سے بھی بدتر ہے، اسکو یہ حق نہیں کہ اپنے استاذ سے محبت کا دعویٰ کرے، وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے، اپنے استاذ سے محبت حضور حافظ ملت، حضور مجاھد ملت اور حضور شارح بخاری کرتے تھے۔ کیا مجال کہ کوئی ان کے سامنے ان کے اساتذہ کے بارے میں تخفیف کا کوئی کلمہ بول کر نکل جائے۔ یہ حضرات غضب اور جلال میں آجاتے، اپنی ملازمت بچانے کے لئے بے غیرت بن کر اپنے اساتذہ کی توہین نہیں سنتے تھے۔
بات لمبی ہوگئی، بات عید کی چل رہی تھی، عید تو ہوگئی مگر دو عید ہونے کا افسوس ہے، مفتی نظام الدین کی غلط بیانی، ضد، ہٹ دھرمی، علامہ سے بغض و حسد اور ’’ہم چنیں دیگرے نیست‘‘ کے باطل جذبے کی بنا پر بہت سی جگہوں پر زبردست جھگڑا ہوگیا، آپس ہی میں عید کرنے نہ کرنے کو لے کر مارکاٹ کی نوبت آگئی، خدارا ایسے حالات پیدا نہ ہوں اس کے لیے تمام بڑے علماء کو مل جل کر کا م کرنا ہوگا، نفسانیت سے باہر نکلنا ہوگا اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ علماء اپنے آپسی اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔

فقط:
محمد شمس تبریز فردوسی
فیض آباد یوپی
3 شوال المکرم 1442 ھ
19 مئی 2021ء سنیچر 


بہار شریعت مکمل گھر بیٹھے رعایتی ہدیہ میں حاصل کرنے کیلئے نیچے کِلک کریں۔

اشرفیہ کے مفتی نظام الدین سے بڑے بڑے علماء کیوں ناراض ہیں! تفصیل کیلئے نیچے کِلک کیجیے۔

Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

اشرفیہ مبارکپور کےمفتی نظام الدین نے کھُلے کفر (صریح کفر)  کو ایمان کی نشانی کہا۔ معاذاللہ! تفصیل جاننے کیلئے کلک کریں۔

Don`t copy text!