مسلک اعلیٰ حضرت سے انحراف کرنے والوں کے لئے

لمحۂ فکریہ

از: فقیر عبد الصمد قادری رضوی
قادری منزل، رفیع گنج ضلع اورنگ آباد (بہار)

 

بوئے ایماں ہے اگر کچھ بھی تو اس کو پڑھ کے دیکھ
چھوڑ عقل، اور منزل ایماں پر تو چڑھ کے دیکھ
حق پہ رہو ثابت قدم، باطل پہ شیدائی نہ ہو
تاکہ دنیا آخرت میں تجھ کو رسوائی نہ ہو

گذشتہ  ۲۵-۳۰ سالوں میں جماعت اہلسنت میں اختلاف و انتشار روز برزور بڑھتا جارہا ہے۔ دور حاضر میں اہلسنت جس کی تعبیر مسلک اعلیٰ حضرت سے کی گئی ہے اس سچے مسلک سے سادہ لوح خوش عقیدہ مسلمانوں کوبرگشتہ کرنے اور اس امتیازی نام کو مٹانے کے لئے فرقہائے باطلہ کے علاوہ سنی کہلانے والے نام نہاد محققین، ایڈیٹرس، آزاد خیال مولوی، مفتی، مجاوراورخاص کر مدنی صاحب وغیرہ صلح کلیت کو فروغ دینے کی خاطر وہابی کا ذبیحہ کھانے اور ان سے نکاح کرنے کے لیے ا یڑی چوٹی کے زور لگائے ہوئے ہیں اور یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ’’ جماعت وہابیہ میں پانچ ہی کافر   ہیں ،باقی جو ان کے پیرو ہیں وہ صرف گمراہ ہیں ان کے بارے میں کوئی کرید کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘ اور بار بار علمائے اہلسنت کی یاد دہانی کے باوجود بھی شخص مذکور کو غلط باتوں پر نظر ثانی کرنے اور جانب رجوع کوئی توجہ نہیں ۔
مسلمانو! بات در اصل یہ ہے کہ نادرست بات سے توبہ و رجوع کی توفیق بھی مقدر والے ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ورنہ آنکھوں پر لوہے کے پردے اور کانوں میں سیسہ پگھلا دیا جاتا ہے۔انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی جاتی ہے۔توبہ و رجوع توروح کا غسل ہے۔جتنی بار کی جائے روح میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔امام غزالی احیاء العلوم میں تحریر فرماتے ہیں توبہ کے تین رکن ہیں (۱) اپنے کئے پر شرمندہ ہونا (۲) اللہ تبارک و تعالیٰ سے معافی چاہنا (۳) اور عہد کرنا کہ آئندہ ایسا گناہ نہیں کروں گا۔ اور چند سال قبل بمبئی کے مولوی ظہیر الدین نے’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے اجتماع بمبئی میں کہا تھا کہ یہ پانچواں مسلک کہاں سے آگیا ؟ مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ نہ لگایا جائے، قبر میں مسلک کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ ایسے سر پھروں کے جواب میں چند مشاہیر شخصیات کے ارشادات ملاحظہ کریں۔
(۱) ’’میرا مسلک شریعت و طریقت میں وہی ہے جو اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے، میرے مسلک پر چلنے کے لئے اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے ۔
(از مکتوبہ ۲۹؍ذی الحجہ ۱۳۳۹؁ھ حضرت شاہ اشرفی میاں کچھوچھہ شریف)
(۲) ’’دین اسلام و مذہب اہلسنت کا سچا خلاصہ ’’مسلک اعلیٰ حضرت ‘‘ ہے یہی وہ مجمع البحار ہے، جس پر آج حنفیت، شافعیت، مالکیت و حنبلیت اور قادریت، چشتیت، شہروردیت، اشرفیت ،مجددیت اور برکاتیت وغیرہم سب سمندر وںکا سنگم ہے۔ ‘‘
(شیر بیشۂ اہلسنت پیلی پھیت)
(۳) ’’الحمدللہ میں مسلک اہل سنت پر زندہ رہا اورمسلک اہلسنت وہی ہے جو اعلیٰ حضرت کی کتابوں میں مرقوم ہے اور الحمد للہ اسی (مسلک اعلیٰ حضرت) پر میری عمر گزری اور الحمدللہ آخری وقت اسی مسلک پر مدینہ طیبہ میں خاتمہ بالخیرہو رہا ہے اور مسلک اہل سنت وہی ہے جو مسلک اعلیٰ حضرت ہے۔‘‘
(مبلغ اسلام حضرت علامہ عبد العلیم میرٹھی علیہ الرحمہ)
(۴) ’’میں تمام مسلمانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ بریلی شریف کے تاجدار اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدددین و ملت مفتی محمد احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا جو مسلک ہے وہی میرا مسلک ہے۔ مسلمانوں کواسے مضبوطی سے پکڑے رہنا چاہئے۔‘‘
(حضرت مولانا مفتی وصی احمد محدث سورتی)
(۵) جو میرا مرید مسلک اعلیٰ حضرت سے ذرا سا بھی ہٹ جائے تو میں اس کی بیعت سے بیزار ہوں اور میرا کوئی ذمہ نہیں ہے۔ مزید یہ بھی فرمایا یہ میری زندگی میں نصیحت ہے اور میرے وصال کے بعد میری وصیت ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا مسلک اعلیٰحضرت در حقیقت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہی مسلک صاحب البرکات ہے، مسلک غوث اعظم ہے، مسلک امام اعظم ہے، مسلک صدیق اکبر ہے۔ ‘‘
(اہلسنت کی آواز ۲۸؍جمادی الاولیٰ ۱۴۱۶؁ھ حضور احسن العلماء مارہرہ شریف)
(۶) ’’اس زمانے میں اہل سنت کو تمام فرقہائے باطلہ سے ممتاز کرنے کے لئے سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے کوئی لفظ موزوں ہوتا ہی نہیں۔ کچھ معاندین اس کے بالمقابل مسلک امام اعظم بولتے ہیں۔ لیکن یہ لفظ امتیاز کے لئے کافی نہیں۔ غیر مقلد کو چھوڑ کر سارے وہابی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں۔مثلاً دیوبندی، مودودی، نیچری حتی کہ قادیانی اپنے کو مسلک امام اعظم پر گامزن بتاتے ہیں اور یہی حال اہل سنت کے لفظ کا بھی ہے کہ ان میں کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو سنی بتاتے ہیں۔ اس تفصیل کی روشنی میں میں نے بہت غورکیا، سوائے مسلک اعلیٰ حضرت کے کوئی لفظ ایسا نہیں جو صحیح العقیدہ سنی مسلمانوں کو تمام بدمذہبوں سے ممتاز کردے۔
(ماہنامہ اشرفیہ اپریل ۱۹۹۹؁ھ از شارح بخاری مفتی شریف الحق صاحب علیہ الرحمہ)
(۷) سارے فرقہائے باطلہ کے مقابلے میں اپنی دینی جماعتی شناخت کے لئے ہمارے پاس بریلوی یا مسلک اعلیٰ حضرت کے لفظ سے زیادہ جامع کوئی دوسرا لفظ نہیں ہے۔
(رئیس القلم علامہ ارشد جمشید پور)
(۸) مسلک اعلیٰ حضرت واقعتاً مسلک اہلسنت و جماعت کا دوسرا نام ہے اور اس دور میں مذہب حق و اہل حق کی پہچان ہے۔اس پہچان کو جومٹانا چاہتا ہے وہ اسلام کی شناخت کو مٹانا چاہتا ہے، گویا کہ وہ اسلام اور غیر اسلام کو ایک کرنا چاہتا ہے۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنے اشعار میں بھی یہی تعلیم دی ہے، فرماتے ہیں:
عیش کر لو یہاں منکرو ! چار دن
مر کے ترسو گے اس زندگی کے لئے
صلح کلی نبی کا نہیں سنیو !
سنی مسلم ہے سچا نبی کے لئے
مسلک اعلیٰ حضرت پہ قائم رہو
زندگی دی گئی ہے اسی کے لئے
نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کر دیں
پدر، مادر، برادر، مال و جاں ان پر فدا کر دیں

(۹) امام احمد رضا بریلوی کی ذات گرامی تو بڑی چیز ، ان کے شہر کی طرف منسوب کرنا اہل ایمان اور عاشق رسول ہونے کی دلیل بن گئی ہے۔ (مدنی میاں کچھوچھہ شریف)
(۱۰) مسلک اعلیٰ حضرت حقیقت میں سواد اعظم کے طریقۂ مرضیہ اور متوارثہ کا نام ہے جو عہد رسالت سے آج تک سواد اعظم کا مسلک ہے ۔
(مفتیٔ اعظم راجستھان جودھپوری)

پیارے ایمانی دینی بھائیو! امام اہلسنت کا صرف فتاویٰ حسام الحرمین عطا فرمانا، مسلمانان بر صغیر پر وہ احسان عظیم ہے جس سے کوئی بھی سنی مسلمان آپ کے بار کرم سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا میں نے بہ نیت خیر خواہی اپنے صرف چند اساطین اہلسنت کے ذریں اقوال اور نصیحتیں پیش کر دیں اسے بغور ملاحظہ فرمائیں اور عملی جامہ پہنائیں اور اس دور پر فتن اورپر آشوب میں گمراہ و بدمذہب کے جال میں پھنسنے سے خود بچیں اور اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو بچائیں اور تمام فرقہائے باطلہ بالخصوص دور حاضر کے صلح کلیوں سے تنکا توڑ جدا رہ کر دین حق یعنی مسلک اعلیٰ حضرت پر مضبوطی کے ساتھ جم جائیں ۔ مولیٰ تبارک و تعالیٰ خوش عقیدہ مسلمانوں کو ماضی قریب میں خلیل احمد بجنوری، ظفر ادیبی مبارکپوری اور انتخاب قدیری کی بد انجامی سے عبرت اور سبق حاصل کرنے کی فکر مرحمت فرمائے اور استقامت علی الحق کی توفیق بخشے۔ آمین
ایمان پا رہا ہے حلاوت کی نعمتیں
اور کفر تیرے نام سے لرزاں ہے آج بھی
کس طرح اتنے علم کے دریا بہا دیئے
علمائے حق کی عقل تو حیراں ہے آج بھی
سب ان سے جلنے والے کے گل ہو گئے چراغ
احمد رضاؔ کی شمع فروزاں ہے آج بھی
پروردگار! مفتیٔ اعظم کی خیر ہو
ان سے ہمارے درد کا درماں ہے آج بھی
مرزاؔ سر نیاز جھکاتا ہے اس لئے
علم و عمل پہ آپ کا احساں ہے آج بھی
مسلک احمد رضا سے منحرف جو بھی ہوا
مارا مارا پھرتا ہے پوچھتا کوئی نہیں

انتخاب قدیری مرادآبادی جب مسلک رضویت کا مخالف نہیں ہوا تھا اس وقت کے اس کے اشعار قارئین ملاحظہ کریں۔ مسلک اعلیٰ حضرت ہی ہے دین حق
اس کی حد سے جو باہر نکل جائے گا
کل بروز قیامت خدا کی قسم
دیکھنا وہ جہنم میں جل جائے گا
مان لے گا انھیں مومن با وفا
اور منافق کا دل ان سے جل جائے گا
انتخاب قدیری بروز جزا
تھام کر دامن شاہ احمد رضا
روبروئے جناب حبیب خدا
ان کادامن پکڑ کر مچل جائے گا

 عبید اللہ خاں اعظمی جماعت اہلسنت سے الگ!

از : عبد الصمد قادری رضوی،
قادری منزل ، رفیع گنج ضلع اورنگ آباد (بہار)

عبیداللہ نے ۱۰؍محرم الحرام ۱۴۴۴؁ھ مطابق ۹؍اگست ۲۰۲۲؁ء کو عرس علیمی کے موقع پر مصطفیٰ بازار ممبئی ہونے والے جلسے میں صحابیٔ رسول، کاتب وحی، فقیہ و مجتہد حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں طعن و تشنیع کیا ۔ اس سے قبل ماضی قریب ہی میں اسی خطیب نے ایران کے امبیسی کے جلسے میں مشہور شیعہ خمینی کو نائب پیغمبر کہا تھا۔ اسی شخص نے ۱۹۹۹ ء یا ۲۰۰۰؁ء میں دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی کے اسٹیج سے مفتیان اہلسنت کے شرعی فتوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایسے فتوؤں کو جوتی کی ٹھوکروں سے اڑاتے ہیں ۔ اس وقت دارالعلوم علیمیہ کے ذمہ داروں کے علاوہ سربراہ اعلیٰ جامعہ اشرفیہ مبارکپور بھی موجود تھے۔ اسی نے بمبئی کے ایک جلسے میں مولوی ظہیر الدین جس نے کہا تھا قبر میں مسلک نہیں پوچھا جائے گا‘ اس کی خوب تعریف و توصیف بیان کیا اور تاج الشریعہ اور محدث کبیر کی جی بھرکر لعن و طعن کیا ۔ اسی بندے نے صوبہ گجرات کے ایک مقام پر کافروں کے رام کتھا میں شریک ہو کر رام اور سیتا کی خوب تعریف و توصیف بیان کی وغیرہ وغیرہ ۔ اس آخری بیان پر تاج الشریعہ اور محدث کبیر کے علاوہ تقریباً ۴۰، ۵۰ مفتیان کرام نے اس نام نہاد خطیب کی تکفیر فرمائی غرضیکہ یہ شخص صحابیٔ رسول ، علماء ومشائخ اور مفتیان کرام کا بہت بڑا گستاخ اور بے ادب ہے، اور جماعت اہلسنت کا توڑنے والا ہے۔جب تک یہ شخص اپنے تمام خرافات شنیعہ سے علی الاعلان توبہ و رجوع کر کے درست نہ ہو جائے اس وقت تک مسلمانوں پر اس شخص سے دور و نفور رہنا لازم و ضروری ہے۔
فقیر قادری عفی عنہ‘
۱۴؍محرم ۱۴۴۴؁ھ مطابق۱۳؍اگست ۲۰۲۲؁ء اہلسنت 


وہابی کا ذبیحہ حرام و مردار ہے۔

 اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ کی تحقیق اور ان کے افکار و نظریات کے مطابق صحیح مسئلہ یہی ہے کہ  وہابی کا ذبیحہ حرام ہے۔ لہٰذا حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ سید مدنی میاں اشرفی صاحب کا بھی یہی موقف سمجھا جائے کیونکہ ’’آپ کی نظر میں حق و صواب وہی ہے جو امام احمد رضا کے افکار و نظریات کے عین موافق ہے۔‘‘ نیز یہ کہ ’’امام اہلسنت امام احمد رضا قدس سرہ کے علم و تحقیق پر حضرت شیخ الاسلام دام ظلہ کا اعتماد ہے۔‘‘ تفصیل کیلئے درج ذیل مضمون پڑھیے جو عین افکار و نظریات رضا کے موافق ہے۔

﷽۔

چند دنوں سے سوشل میڈیا پر حضرت سید مدنی میاں صاحب قبلہ کی ایک ویڈیو کلپ بڑی تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں آپ نے وہابی کے ذبیحے کے متعلق کیے جانے والے سوال کا جواب ایسے عجیب و غریب پیرائے میں مرحمت فرمایا ہے جو حالات زمانہ کی رعایت، اصول افتاء کی طبیعت اور کتب فقہ کے مزاج سے الگ تھلگ معلوم ہوتا ہے۔ اس جواب سے سادہ لوح، کم علم اور اصول کی گہرائی و گیرائی سے ناآشنا عوام خلجان کا شکار ہے اور ان کی فقہی مشکل کم ہونےکے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔

سوال دراصل اتنا تھا کہ وہابی کا ذبیحہ درست اور جائز ہے یا نہیں؟ تو عام کتب فقہ اور فتاویٰ کے مطابق باعتبار عمومیت جماعتی حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب یہ بنتاتھا کہ ”حرام ہے“مگر نہ جانے  کیوں حضرت نے جواب  کو پیچیدہ کردیا اور منطقی طرز اختیار کرتے ہوئے اشارۃ علم کلام کی بحث کا رخ کرلیا۔

یہاں پر ہم قارئین کرام کو اصل مسئلہ سے روشناس کراتے چلیں کہ وہابی کی دو قسمیں ہیں۔
(۱) بظاہر مقلد جو دیوبندی کے نام سے مشہور ہیں۔
(۲) غیر مقلد جو سلفی اور اہل حدیث کے نام سے مشہور ہیں۔
اول الذکر پر جماعتی حکم کفر کا ہے چونکہ پیشوایانِ دیابنہ کی ان کے عقائد کفریہ کے سبب تکفیر کلامی کی گئی ہے تاہم مؤخرالذکر کا جماعتی حکم عندالمتکلمین گمراہی اور بحکم اکثر فقہا کفر لزومی کا ہے جیسا کہ فقہی تصریحات سے واشگاف ہے۔ سردست یہ بھی ذہن نشیں کرلیں کہ ذبیحہ کے جواز و عدم جواز اور حلت و حرمت کا مسئلہ نکاح کے جواز و عدم جواز کی طرح فقہی ہے اور جائز و ناجائز کے متعلق دریافت کرنے کی صورت میں مفتی پر ضروری ہے کہ فقہی جزئیات کو اپنے جواب کا زیور بنائے اور عوام کے ذہن و دماغ کے مطابق واضح اور تشفی بخش جواب عنایت کرے جس سے کوئی ذہنی خلجان پیدا نہ ہو۔ اسی طرح ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ عام و مجمل سوال کے جواب میں عام و مجمل طرز اختیار کرے اور خاص و مفصل سوال کے جواب میں خاص و مفصل طرز۔ اس کو سمجھنے کیلئے فتاویٰ رضویہ شریف سے دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

امام اہل سنت مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان ایک عام سوال کے جواب میں عام حکم بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”طائفہ تالفہ غیر مقلدین گمراہ بد دین اور بحکم فقہ کفار و مرتدین ہیں جن پر بوجوہ کثیرہ لزوم کفر بین مبین۔“
(فتاویٰ رضویہ، ج۶، ص ۳۳، رضااکیڈمی)
دوسری جگہ ایک تفصیلی سوال کے جواب میں خاص اور تفصیلی طرز اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ افادۂ علمی اور صحیح نتیجہ اخذی کے لئے سوال و جواب من و عن نقل ہے:

”مسئلہ: کیا شیعوں کے سب فرقے اور غیر مقلدین سب کے سب کافر ہیں؟
الجواب: ان میں ضروریات دین سے کسی شے کا جو منکر ہے، یقیناً کافرہے اور جو قطعیات کے منکر ہیں، ان پر بحکم فقہاء لزوم کفر ہے اور اگر کوئی غیر مقلد ایسا پایا جائے کہ صرف انہی فرعی اعمال میں مخالف ہو اور تمام عقائد قطعیہ میں اہل سنت کا موافق یا وہ شیعی کہ صرف تفضیلی ہے، تو ایسوں پر حکم تکفیر ناممکن ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم “
(فتاویٰ رضویہ، ج۶، ص ۳۲، رضا اکیڈمی)

ان دونوں مثالوں سے آشکار ہے کہ جب (کسی جماعت کے متعلق) عام حکم دریافت کیا جائے تو جواب بھی سوال کے موافق ہو۔ تفصیل میں جانا اور عوام کی عقل سے ماورا گفتگو کرنا بلاشبہ مقتضائے حال کے خلاف اور بہت سارے شکوک و شبہات کا باعث ہوگا۔ قارئین کرام کو بتاتے چلیں کہ حضرت کے جواب میں دو باتوں پر خاص زور دیا گیا ہے۔
(۱) اول اس پر کہ ”پوری دنیا میں صرف پانچ افراد کو کافر کہا گیا ہے اور باقی کو گمراہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کسی حکمت کے پیش نظر، اور وہ کافر نہیں۔ لہٰذا اُن کا ذبیحہ حلال ہے، چونکہ حرام ہونے کے لئے ان کے کفر کا قطعی علم درکار ہے۔“
جواب کے اس مقدمہ پر حضرت والا سے عرض ہے کہ بلاشبہ ان پانچ افراد کا کفر شہرت یافتہ اور جگ ظاہر ہے مگر ’’من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر‘‘ کی قید بھی کسی حکمت کے پیش نظر ہے؟ جس کو نظر انداز کرکے ان پانچ کے علاوہ مابقیہ کے ذبیحہ کو بلا کسی خلل و کراہت کے حلال قرا دینا اور عام سوال پر بالکل غور نہ فرمانا اصول فقہ، تقاضائے اہلسنت اور مسلمانان اہلسنت کی خیرکواہی کے خلاف ہے۔
(۲) دوسرا اس پر کہ ان پانچ کا کفر تو جگ ظاہر ہے مگر ”پانچ ہزار، پانچ لاکھ ہوں گے وہ جو اِن کے پیچھے چل رہے ہیں مگر وہ جانتے ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کفر کیا ہے؟ جب جانتے نہیں تو اس کا کچھ نہیں، وہ گمراہ رہیں گے۔“
اس پر عرض ہے کہ پانچ ہزار یا پانچ لاکھ (جس سے آپ کی مراد کثرت کو بیان کرنا ہے نہ کہ نفس عدد) کے بارے میں طواغیت اربعہ سے لاعلمی کا ادعاء محض امکانی ہے، واقعی نہیں۔ یوں ہی آپ کا قول (اس کا کچھ نہیں، وہ گمراہ رہیں گے) دو متضاد حکموں کو بتاتا ہے۔ کہ ایک طرف تو اس (یعنی وہابی) کو ذبیحہ کے بارے میں کلین چٹ دے رہا ہے، دوسری طرف اس سے احتراز کو لازم کرنے والا وصفِ خاص (گمرہی) بھی بیان کر رہا ہے، تو کیا گمراہ پر بحکم اکثر فقہاء لزوم کفر نہیں؟ اور کیا اس کے ذبیحہ سے اجتناب کیلئے اس کا گمراہ ہونا ہی کافی نہیں؟ اگر ہاں تو اس گوشہ سے اعراض کرنے کی حکمت بیان فرمادیں اور اگر نہیں تو گمراہ سے دور رہنے  کا حکم دینے والی حدیثوں کا کیا جواب ہوگا؟ یہاں ادعائے محض و امکانی اور واقعی نہ ہونے پر امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی تصریح ملاحظہ ہو۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
”ان دیار میں وہابی ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اسماعیل دہلوی کے پیرو اور اس کی کتاب تقویۃ الایمان کے معتقد ہیں۔ یہ لوگ مثل شیعہ خارجی معتزلہ وغیرھم اہل سنت کے مخالف مذہب ہیں۔ ان میں سے جس شخص کی بدعت حد کفر تک نہ ہو، یہ اس وقت تک تھا، اب کبرائے وہابیہ نے کھلے کھلے ضروریات دین کا انکار کیا اور تمام وہابیہ اس میں ان کے موافق یا کم از کم ان کے حامی یا انہیں مسلمان جاننے والے ہیں اور یہ سب صریح کفر ہیں۔ تو اب وہابیہ میں کوئی ایسا نہ رہا جس کی بدعت کفر سے گری ہوئی ہو، خواہ غیر مقلد ہو یا بظاہر مقلد۔“
(فتاویٰ رضویہ ، ج۳، ص ۱۶۹ تا ۱۷۰)
کیا امام اہل سنت کے قول (کوئی ایسا نہ رہا) سے آپ کے پانچ ہزار یا پانچ لاکھ والے دعویٰ کی تردید نہیں ہو رہی ہے؟ یہ تو سو سال سے بھی پہلے کے حالاتِ وہابیہ ہیں جنکی امام اہلسنت نے تصریح فرمائی ہے۔ اب جبکہ صدرالافاضل، محدث اعظم ہند، حجۃ الاسلام، مفتیٔ اعظم، شیربیشۂ اہلسنت اور علامہ ارشد القادری جیسے قابل استناد علماء و خطباء و مناظرین نے بحث و مباحثہ کر کے کفریات وہابیہ سے پردہ ہٹا دیا اور مسئلے کو منقح کر دیا تو ایسے وقت میں بھی اکثریت کو (جس میں عوام و خواص شامل ہیں)  کفریات سے نابلد بتانا، یہ تصلب کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں کو اپنی ہی گفتگو سے اختلاف کا جواز فراہم کرنا نہیں؟

قارئین کرام کے افادہ کیلئے تین ایسے مقدمات بھی تحریر کیے دیتے ہیں جن سے مسئلہ فہمی میں آسانی ہوگی اور وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) تمام وہابیوں پر فقہائے کرام کے ارشادات کے مطابق کفر لازم آتا ہے۔
(۲) تکفیر کے مسئلے میں غایت احتیاط مذہب متکلمین اختیار کرنا ہے۔
(۳) اجتناب و احتراز کےموقع پر غایت احتیاط فقہائے کرام کا مذہب اختیار کرنا ہے۔
ان تینوں مقدمات کو امام اہلسنت کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
”تو دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسا نہ ہوگا جس پر فقہائے کرام کے ارشادات سے کفر لازم نہ ہو اور نکاح کا جواز و عدم جواز نہیں مگر ایک مسئلہ فقہی تو یہاں حکم فقہاء یہی ہوگا کہ ان سے مناکحت اصلاً جائز نہیں۔ خواہ مرد وہابی ہو یا عورت وہابیہ اور مرد سنی اور ان میں جو کسی ضروری دین کا منکر نہیں، نہ کسی ضروری دین کے منکر کو مسلمان کہتا ہے، اسے کافر نہیں کہتے مگر یہ صرف برائے احتیاط ہے، دربارۂ تکفیر حتی الامکان احتیاط اس میں ہے کہ سکوت کیجئے۔ مگر وہی احتیاط جو وہاں مانع تکفیر ہوئی تھی، یہاں مانع نکاح ہوگی کہ جب جمہور فقہائے کرام کے حکم سے ان پر کفر لازم تو ان سے مناکحت زنا ہے۔ تو یہاں احتیاط اس میں ہے کہ اس سے دور رہیں اور مسلمانوں کو باز رکھیں۔“
(فتاویٔ رضویہ جلد ۹ صفحہ ۲۳۹مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی)
اس عبارت میں چند باتیں خاص طور پر لائق اعتناء ہیں:
(۱) “دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسا نہ ہوگا۔۔۔ “ اس جملہ سے آپ کے دعوے (یقین جانیے اور اُمید رکھیے کہ جتنے ذبیحہ کرنے والے ہیں وہ درجۂ کفر تک نہیں پہنچے ہیں) کی تردید ہوگئی۔ ایک تو یہ کہ موجودہ دور میں وہابیوں کی اکثریت کفریات طواغیت سے واقف کار ہے جیسا کہ ہمارے بزرگوں کی توضیحات و خطابات اور ایمانی نگہداشت شاہد عدل ہے۔ دوسری بات یہ کہ جن کو عندالمتکلمین کفر سے بچا رہے ہیں ان پر عندالفقہاء لزومِ کفر حتماً پایا جارہا ہے اور جس طرح کافر کلامی سے اجتناب چاہیے اسی طرح کافر فقہی سے بھی اجتناب چاہیے۔
(۲) “دربارہء تکفیر حتی الامکاں۔۔۔” اور ” اس سے دور رہیں اور مسلمانوں کو باز رکھیں۔۔۔” 
ان دو جملوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تکفیر کے مسئلے میں احتیاطاً مذہب متکلمین اختیار کرتے ہوئے تکفیر سے بچا جائے لیکن حکم حرمت لگانے اور پرہیز کرنے کے بارے میں کفر قطعی کلامی ہی درکار نہیں بلکہ فقہی بھی کافی ہوگا کہ شرع شریف میں جلب منفعت پر دفع مفسدہ کو اولیت حاصل ہے۔

یہ چند سطور احباب کے پیہم اصرار کے بعد فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں تحریر کردیں۔ اس امید پر کہ حضرت والا اپنے جواب پر غور فرمائیں گے تاکہ عوام اہلسنت کا اضطراب ختم ہو۔ اس فقیر پرتقصیر نے دوران تحریر دامن ادب تھامے رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ پھر بھی اگر بتقاضائے بشریت کہیں پر دامن ادب چھوٹ گیا ہو تو حضرت والا معذور رکھیں گے کہ ہمیں الحمدللہ آپ کی عظیم نسبت، علمی وجاہت اور بلند پایہ شخصیت کا بسر و چشم اعتراف و احترام ہے اور دعا ہے کہ رب قدیر آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضری عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین

(مفتی) محمد شہزاد عالم رضوی،
خادم التدریس و الافتاء، جامعتہ الرضا،
بریلی شریف

اس موضوع پر خلیفۂ حضورتاج الشریعہ و خلیفۂ حضور محدث کبیر حضرت علامہ مفتی شمشاد احمد مصباحی صاحب قبلہ (جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی) کی شاندار تحریر بھی ضرور پڑھیں! کِلک کریں:

نیچے کِلک کرکے ایک شاندار مضمون پڑھیے جس میں بتایا گیا ہے کہ شیخ الاسلام حضرت علامہ سید مدنی میاں صاحب  کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق عام دیوبندی وہابی بھی کافر ہیں اور ان کا ذبیحہ ناجائز و حرام مثل مردار ہے۔

نیچے کِلک کرکے سنیے کہ توقیر رضا نے صاف اعلان کردیا کہ:
’’شیعہ، سنی، وہابی، اہلحدیث، یہ تمام میرے نزدیک مسلمان ہیں!‘‘
معاذاللہ

کیا آپ نے کِلکِ رضا کا تعاون کیا؟
اگر نہیں تو اِس طرف بھی کچھ توجہ کیجیے  کیونکہ کسی بھی مشن کو جاری رکھنے کیلئے اخراجات کی ضرورت پڑتی ہے!
اس کے بغیر کام کرنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور ہر منصوبے پر عمل نہیں ہوپاتا۔ نیچے بٹن پر کِلک کریں:-

Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

Hum Aap se Guzarish Karte Hain Ke Aap Hame Koi Paigam Ya Message Dijiye ya Kum se Kum Apna WhatsApp Number Dijiye Taa ke Hum Aap Ko Direct Msg Bhej Saken. Sab se Pahle Aap Hamara Number Save kijiye:-

(+91) 96070 23653

Ab Aap Apna WhatsApp No. Aur Naam Wagaira Dijiye.

    Don`t copy text!